کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 191
باپ آپ کو بلا رہا ہے تاکہ آپ کو صلہ دے۔پھر جب وہ اس کے پاس آئے اور اپنا حال سنایا تو اس نے کہا : ڈرو نہیں، تم نے ظالموں سے نجات پالی ہے۔‘‘ اس کے بعد ان لڑکیوں کے والد نے ایک معاہدے کے تحت ان میں سے ایک کی شادی موسی علیہ السلام سے کردی۔یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کیلئے بہت بڑی خیر تھی۔ یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس لڑکی کی ایک صفت یہ ذکر کی ہے کہ وہ موسی علیہ السلام کو بلانے شرم وحیاء کے ساتھ چلتے ہوئے آئی۔لہٰذا آج کل کی لڑکیوں کو بھی اِس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اپنے اندر اس صفت کو پیدا کرنا چاہئے۔ 4۔صحابیات ( رضی اللّٰه عنہن ) کی حیاء کے واقعات 1۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ جَرَّ ثَوبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) ’’ جو شخص اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ گھسیٹے، اللہ تعالی روزِ قیامت اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ( فَکَیْفَ یَصْنَعْنَ النِّسَائُ بِذُیُوْلِہِنَّ ) عورتیں اپنی چادروں کے کناروں کا کیا کریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( یُرْخِیْنَ شِبْرًا ) ’’ ایک بالشت تک لٹکا لیا کریں۔‘‘ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ( إِذًا تَنْکَشِفُ أَقْدَامُہُنَّ ) تب تو پیر ننگے ہو جائیں گے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( فَیُرْخِیْنَہُ ذِرَاعًا لَا یَزِدْنَ عَلَیْہِ ) ’’وہ ایک ہاتھ تک انھیں لٹکا لیا کریں، اِس سے زیادہ نہیں۔‘‘[1] غور کیجئے کہ صحابیات ( رضی اللّٰه عنہن ) اِس قدر با حیا تھیں کہ قدموں کا ننگا ہونا بھی ان کیلئے قابل برداشت نہ تھا ! جبکہ آج کل قدم تو دور کی بات، پوری پوری پنڈلیاں ننگی ہوجائیں، سر ننگا ہو، سینے پر اوڑھنی نہ ہو تو اسے بے حیائی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے ’ ماڈرن ازم ‘ سمجھا جاتا ہے۔ 2۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (( کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مُحْرِمَاتٌ،فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأْسِہَا عَلٰی وَجْہِہَا، فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ)) [2] ’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت ِ احرام میں تھیں، جب مرد ہمارے سامنے آتے تو ہم میں سے ہر
[1] جامع الترمذی :1731 قال الترمذی حسن صحیح۔وصححہ الألبانی [2] سنن أبی داؤد:1833،سنن ابن ماجہ:2935وضعفہ الألبانی ولکن لہ شاہد من حدیث أسماء وفاطمۃ