کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 187
’’ میرا مقصد یہ نہیں جو تم لوگوں نے سمجھا ہے۔بلکہ اللہ تعالی سے کما حقہ حیاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اسی طرح کانوں، آنکھوں اورزبان کی حفاظت کرو۔اور پیٹ اور وہ جس چیز کو جمع کرے اس کی حفاظت کرو۔( یعنی اس میں حرام کا لقمہ نہ جانے دو۔اسی طرح اپنے دل اور شرمگاہ کی بھی حفاظت کرو ) اور موت اور (قبر میں ) بوسیدگی کو یاد کرو۔اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت کو چھوڑ دیتا ہے۔لہذا جو شخص ایسے کرے گا تو اس نے گویا کہ اللہ تعالی سے اُس طرح حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی سے کما حقہ حیاء کرنے کا معنی یہ ہے کہ آپ اپنے پورے جسم کو، خصوصا اپنے حواس کو اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچائیں۔ اللہ تعالی کی نافرمانی سے پر ہیز تبھی ممکن ہے جب بندہ اللہ تعالی سے حیاء کرے۔ سعید بن یزید الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: ( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! أَوْصِنِیْ ) ’’ اے اللہ کے رسول ! مجھے وصیت کریں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أُوْصِیْکَ أَنْ تَسْتَحْیِیَ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا تَسْتَحْیِیْ رَجُلًا مِنْ صَالِحِیْ قَومِکَ )) ’’ میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ عز وجل سے اُس طرح حیاء کرو جیسا کہ تم اپنی قوم کے صلحاء میں سے کسی صالح آدمی سے حیاء کرتے ہو۔‘‘[1] یعنی جس طرح تم اپنے قبیلے کے ایک صالح آدمی سے حیاء کرتے ہوئے اس کے سامنے کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو معیوب ہو۔اسی طرح تم اللہ تعالی سے بھی حیاء کرتے ہوئے کوئی ایسا کام نہ کرو جو اللہ تعالی کی نظر میں برا ہو اور اس کی ناراضگی کا باعث بن سکتا ہو۔ محترم حضرات ! ٭ جس ایمانی حیاء کی ہم بات کر ر ہے ہیں، یہ ہمیشہ خیر وبھلائی کا ہی سبب بنتا ہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِیْ إِلَّا بِخَیْرٍ )) ’’ حیاء خیر ہی کو لاتی ہے۔‘‘[2] ٭ اور حیاء جس چیز میں ہو اسے وہ خوبصورت بنا دیتی ہے۔اور جس چیز میں نہ ہو اور اس میں بے حیائی ہو تو وہ اسے بد صورت بنادیتی ہے۔
[1] السلسلۃ الصحیحۃ : 741 [2] صحیح البخاری :6117، وصحیح مسلم : 165