کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 175
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی چیز سے ڈراتے ہوئے فرمایا تھا : (( فَوَاللّٰہِ مَا الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ، وَلٰکِنْ أَخْشٰی أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ قَبْلَکُمْ، فَتَنَافَسُوہَا کَمَا تَنَافَسُوہَا، وَتُہْلِکَکُمْ کَمَا أَہْلَکَتْہُمْ )) ’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم پر فقر وفاقہ آئے، بلکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں دنیا تم پر کھول نہ دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کھولی گئی، پھر تم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔اور دنیا تمھیں ہلاک کردے جیسا کہ انھیں ہلاک کیا تھا۔‘‘[1] اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِذَا فُتِحَتْ عَلَیْکُمْ فَارِسُ وَالرُّوْمُ أَیُّ قُوْمٍ أَنْتُمْ ؟ )) ’’ جب تم پر فارس اور روم ( کے خزانے ) کھول دئیے جائیں گے تو تم لوگ کیا کرو گے ؟‘‘ تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : (( نَقُولُ کَمَا أَمَرَنَا اللّٰہُ )) ’’ ہم وہی کہیں جس کا ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘ یعنی ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کریں گے اور اس کے مزید فضل وکرم کا سوال کریں گے۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَوَ غَیْرَ ذَلِک ؟ )) ’’یا اس کے علاوہ کچھ اور ‘‘ یعنی تمھاری حالت کچھ اورہوگی۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تَتَنَافَسُونَ ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ أَوْ نَحْوَ ذٰلِک )) ’’ تم ( ان خزانوں کے حصول کیلئے ) ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے، پھر ایک دوسرے سے حسد کرو گے، پھر ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرو گے۔پھر ایک دوسرے سے بغض رکھو گے۔یا اس طرح کی دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔‘‘[2] اہل علم کا کہنا ہے کہ ’ تنافس ‘ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص ان خزانوں کی طرف لپکے گا کہ کہیں کوئی اور اُس سے پہلے اُن خزانوں کو حاصل نہ کر لے۔اور یہ حسد کا پہلا درجہ ہے اور یہیں سے حسد کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( سَیُصِیْبُ أُمَّتِی دَائُ الْأُمَمِ )) ’’ عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری لگ جائے گی۔‘‘
[1] صحیح البخاری :4015، صحیح مسلم :2961 [2] صحیح مسلم :2962