کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 174
ختم کرنے اور خود اس پر فوقیت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو وہ اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے۔مثلا ایک کلاس کے تمام طالب علم ایک جیسی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے۔ان میں سے کوئی طالب علم اگر اللہ رب العزت کی توفیق اور اس کی دی ہوئی صلاحیتوں کی بدولت اپنے ساتھیوں پر فوقیت حاصل کرلے، پھر اس کا کوئی ساتھی شدید محنت کرنے کے باوجود اس پر فوقیت حاصل نہ کر سکے تو وہ اس سے حسد کرنے لگتا ہے۔اسی طرح کاروباری لوگوں میں بھی ہوتا ہے۔اور خواتین میں بھی۔
5۔جاہ ومنصب کا لالچ
یعنی بسا اوقات ایک شخص اپنے خاندان یا اپنے شہر یا اپنے ملک میں اعلی جاہ ومنصب کا خواہشمند ہوتا ہے۔لیکن جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی اور شخص اس کے خاندان یا شہر یا ملک میں اس کے مد مقابل آرہا ہے اور لوگ اسے اس پر ترجیح دے رہے ہیں تو وہ اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے۔اور ایسا آج کل سیاسی میدان میں بہت ہوتا ہے۔اسی طرح کمپنی یا محکمے میں بھی کئی لوگ اعلی جاہ ومنصب کے لالچ میں اپنے ساتھیوں سے حسد کرنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ان سے آگے نہ بڑھ جائیں اور کہیں وہ ترقی پاکر اعلی پوسٹوں پر فائز نہ ہو جائیں۔
مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول، جو رئیس المنافقین تھا، اس کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مکہ مکرمہ میں سردارانِ قریش کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد بھی اسی نوعیت کا تھا۔
6۔مال ودولت کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش
ہر انسان مال ودولت سے شدید محبت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَاِِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ﴾[1]
’’ اور وہ ( انسان ) مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
(( لَوْکَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِن مَّالٍ لَابْتَغٰی ثَالِثًا، وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ ))
’’ اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ چاہتاہے کہ تیسری بھی ہو۔اور آدمی کے پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘[2]
مال ودولت کے اسی لالچ کی بناء پر جب ایک انسان دوسرے انسان کو دیکھتا ہے کہ اُس کے پاس اُس سے زیادہ مال ہے اور وہ زیادہ دولت کما رہا ہے تو وہ اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے۔
[1] العادیات100 :8
[2] صحیح البخاری:6436،صحیح مسلم :1048