کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 173
اس کے کئی اسباب ہیں :
1۔تقسیم ِ ارزاق پر عدم قناعت اور ناراضگی
اگر ہم اس سبب کی وضاحت کرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے ارزاق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتاہے زیادہ رزق عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے محدود مقدار میں رزق عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾ [1]
’’ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کیلئے چاہے کم کر دیتاہے۔اور یقینا وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔‘‘
ایک ایسا شخص جسے اللہ تعالی نے زیادہ رزق نہیں دیا، ہونا تو یہ چاہئے کہ اسے اللہ تعالی نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ اس پر قناعت اختیار کرے، ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور مزید رزق کا اللہ تعالی سے ہی سوال کرے کہ رزق کی تمام چابیاں اُسی کے ہاتھ میں ہیں۔لیکن اگر وہ اُس انسان سے حسد کرے جسے اللہ تعالی نے زیادہ رزق دیا ہو تو وہ گویا کہ اللہ رب العزت کی تقسیم پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔اور یہ ہرگز جائز نہیں ہے۔
2۔تکبر اور خود پسندی۔یعنی حاسد اس احساس میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ سب سے اچھا ہے اور تمام نعمتوں کا مستحق ہے۔اسی لئے جب وہ دوسرے لوگوں کے پاس مختلف نعمتیں دیکھتا ہے تو اس سے یہ چیز برداشت نہیں ہوتی۔چنانچہ وہ ان سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے۔
3۔حاسدکا محسود سے بغض
یعنی جب کوئی شخص کسی سے بغض رکھ لیتا ہے اور دل ہی دل میں اس سے نفرت کرنا شروع کردیتا ہے تو اسے خوشحال دیکھ کر، یا صحت مند اور تندرست دیکھ کر، یا اس کے پاس اللہ تعالی کی کسی نعمت کو دیکھ کر اس سے حسد کرنا شروع کردیتا ہے۔
4۔محسود کا بعض چیزوں میں تفوق اور حاسد کا ان چیزوں کے حصول سے عاجز آنا
یعنی بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالی بعض صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔جن کی بناء پر وہ اپنے اقران پر فوقیت حاصل کرلیتا ہے۔پھر اقران میں سے کوئی شخص کوشش کے باوجوداگر اس آدمی کے تفوق کو
[1] العنکبوت29 :62