کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 172
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ﴾[1]
’’ اور آپ انھیں آدم ( علیہ السلام ) کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ بتائیے۔جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔‘‘
آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔ہابیل ایک نیک سیرت اور متقی انسان تھا۔اور اس نے پورے اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کی جسے قبول کر لیا گیا۔جبکہ قابیل ایسا نہ تھا، چنانچہ اس نے قربانی پیش کی تو اسے قبول نہ کیا گیا۔بس یہی وہ بات تھی جس کی بناء پر قابیل نے ہابیل سے حسد کیا۔اور اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا :
﴿ لَاَقْتُلَنَّکَ﴾ ’’ میں تمھیں ضرور مار ڈالوں گا۔‘‘
تو ہابیل نے جواب دیا : ﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’ اللہ تو صرف متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔‘‘
پھر کہا : ﴿ لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓاَ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ﴾[2]
’’ اگر تو مجھے مار ڈالنے کیلئے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو بھی میں تجھے قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔میں تو فقط اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔میں چاہتاہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ سب کچھ سمیٹ لے اور اہل جہنم میں سے ہو جائے۔اور ظالم لوگوں کی یہی سزا ہے۔‘‘
لیکن قابیل اپنے بھائی کی یہ نصیحت سن کر ذرا برابر متاثر نہ ہوا اور اسے قتل کرنے پر تل گیا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْن ﴾[3]
’’ بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر لیا، چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا۔پھر وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔‘‘
حسد کے اسباب
سامعین گرامی ! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک حاسد کسی سے کیوں حسد کرتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
[1] المائدۃ5 :27
[2] المائدۃ5 :28۔29
[3] المائدۃ5 :30