کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 171
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا تَحَسَّسُوْا، وَلَا تَنَاجَشُوْا، کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا)) [1] ’’ تم ایک دوسرے سے نہ حسد کرو اور نہ ہی بغض رکھو۔نہ جاسوسی کیا کرو اور نہ ہی چوری چھپے کسی کی گفتگو سنا کرو۔اور خریداری کے ارادے کے بغیر محض کسی چیز کی قیمت بڑھانے کیلئے بولی نہ لگایا کرو کہ دوسرا آدمی دھوکہ کھاجائے۔اور تم سب اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘ ایک حاسد انسان نفسیاتی مریض ہوتاہے۔کیونکہ وہ یہ نا پسند کرتا ہے کہ اللہ کی نعمتیں اس کے بندوں کو نصیب ہوں۔وہ خود ان نعمتوں کے حصول کیلئے کوئی جدو جہد اور محنت نہیں کرتا، بلکہ اس کا مطمح نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ جس کو اللہ کی نعمتیں ملی ہوئی ہیں اُس سے وہ نعمتیں چھن جائیں اور وہ ان سے محروم ہو جائے۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ہی خطرناک بیماری قرار دیا۔جس کی وجہ سے ’حاسد ‘ اپنے دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔والعیاذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( دَبَّ إِلَیْکُمْ دَائُ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ : اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ، ہِیَ الْحَالِقَۃُ، لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ )) ’’ تمھاری طرف تم سے پہلی امتوں کی ایک بیماری چل نکلی ہے اور وہ ہے حسد اور بغض۔اور یہ بیماری ایسی ہے جو بالکل صفایا کردیتی ہے، میں نہیں کہتا کہ بالوں کا صفایا کرتی ہے بلکہ دین کا صفایا کردیتی ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَفَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِمَا یُثْبِتُ ذَاکُمْ لَکُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ)) [2] ’’اللہ کی قسم ! تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ۔اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔تو کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتلاؤں جو تمھارے درمیان اس محبت کو دیر تک قائم رکھے گی ؟ تم آپس میں سلام کو عام کر دو۔‘‘ محترم سامعین ! حسد اس قدر مہلک اور خطرناک بیماری ہے کہ بعض اوقات اس کی وجہ سے حاسد انسان جس سے حسد کرتا ہے اسے قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔اس کی دلیل ہابیل اور قابیل کا واقعہ ہے جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔
[1] صحیح مسلم :2563 [2] جامع الترمذی :2510۔وحسنہ الألبانی