کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 164
العاص رضی اللہ عنہ مروہ پر ملے، کچھ دیر بات چیت کی، پھر عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ چلے گئے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کردیا۔تو ایک آدمی نے پوچھا : ابو عبد الرحمن ! آپ کو کس بات نے رلایا ؟ تو انھوں نے کہا : مجھے اِس (عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ) نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ کَبَّہُ اللّٰہُ لِوَجْہِہٖ فِی النَّارِ )) ’’ جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو اسے اللہ تعالی جہنم کی آگ میں اوندھے منہ گرائے گا۔‘‘[1] محترم حضرات ! تکبر کے ان خطرناک اور سنگین نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو اس سے مکمل طور پر بچنا چاہئے۔نہ ہم زمین پر اکڑ کر چلیں، نہ خود پسندی کا شکار ہوں، نہ اپنے کپڑے ٹخنوں سے نیچے لٹکائیں، نہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے اپنے آپ کو بڑا گردانیں اور نہ ہی اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھیں۔بلکہ اس کے برعکس ہم تواضع، عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کریں۔کیونکہ جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے عزت، بلندی اور ترقی نصیب کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ)) [2] ’’ اور جو شخص بھی اللہ کیلئے تواضع اختیار کرتا ہے اسے اللہ تعالی یقینی طور پر بلندی ورفعت نصیب کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( یَقُولُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : مَنْ تَوَاضَعَ لِی ہٰکَذَا۔وَجَعَلَ یَزِیْدُ بَاطِنَ کَفِّہٖ إِلٰی الْأَرْضِ وَأَدْنَاہَا۔رَفَعْتُہُ ہٰکَذَا۔وَجَعَلَ بَاطِنَ کَفِّہٖ إِلَی السَّمَائِ)) [3] ’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے لئے اس طرح ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی کا باطن زمین کی طرف اور مزید نیچے کی طرف جھکاتے ہوئے کہا) عاجزی اختیار کرتا ہے، میں اس کو اس طرح ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی کا باطن آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا) بلندی نصیب کروں گا۔‘‘ تواضع، عاجزی اور انکساری کا جو اعلی نمونہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر پیش فرمایا ہمیں بھی اس کی اتباع
[1] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :2909 [2] صحیح مسلم :2588 [3] مسند أحمد: 309۔وصححہ الأرناؤط