کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 158
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [1]
’’ اور جب اس کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو مارے تکبر کے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس نے انھیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے دونوں کان بہرے ہیں۔لہذا آپ اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ﴾ [2]
’’بلا شبہ جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کیلئے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔اور ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔‘‘
2۔لوگوں کو حقیر سمجھنا
یعنی اپنے آپ کو لوگوں سے بہتر تصور کرتے ہوئے انھیں حقیر سمجھنا۔یقینا یہ بھی تکبر میں شامل ہے۔
اور اسی لئے اللہ تعالی نے دوسروں کا مذاق اڑانے اور ایک دوسرے کوبرے القاب کے ساتھ ذکر کرنے سے منع فرمایا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾[3]
’’ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔اور آپس میں ایک دوسرے کوعیب نہ لگاؤ ا ور نہ ایک دوسرے کا بُرا لقب رکھو۔‘‘
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہُ وََلَا یَخْذُلُہُ وَلَا یَحْقِرُہُ، اَلتَّقْوَی ہٰہُنَا۔وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ۔ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ :
[1] لقمان31 :7
[2] الأعراف7: 40
[3] الحجرات49 :11