کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 156
اور بعض لوگ اچھی قراء ت کی بناء پر تکبر کرتے ہیں۔ الغرض یہ کہ تکبر کی وجہ کوئی بھی ہو، یہ ہر حال میں برا ہے او ر اس کا انجام بھی برا ہی ہوتاہے۔ حدیث نبوی میں تکبر کی وضاحت لفظ ’ کبر ‘ یا تکبر کی ہم وضاحت کرچکے ہیں۔تاہم یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کی تشریح بزبان نبوت بھی سن لیں۔ جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ )) ’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو۔‘‘ سامعین گرامی ! حدیث مکمل کرنے سے پہلے آپ ذرا غور کریں کہ تکبر کتنا سنگین گناہ ہے ! اِس قدر بڑا گناہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر پایا جاتا ہو اور وہ اُس سے توبہ کئے بغیر مر جائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔والعیاذ باللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ایک شخص نے کہا : (( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَن یَّکُونَ ثَوبُہُ حَسَنًا وَنَعْلُہُ حَسَنًا )) اے اللہ کے رسول ! بے شک ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور اس کا جوتا خوبصورت ہو ( تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْکِبْرُ بَطْرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )) ’’ بے شک اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔کبر حق کو ٹھکرا نے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔‘‘[1] اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جب حضرت نوح علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور فرمایا : (( آمُرُکَ بِاثْنَتَیْنِ وَأَنْہَاکَ عَنِ اثْنَتَیْنِ )) ’’ میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں۔‘‘ (( آمُرُکَ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَإِنَّ السَّمَاوٰتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِیْنَ السَّبْعَ لَوْ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّۃٍ، وَوُضِعَتْ لَا
[1] صحیح مسلم : 91