کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 15
٭ اخلاص ایک تاجر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ صاف ستھرا لین دین کرے۔دھوکہ، فراڈ، خیانت اور جھوٹ سے اجتناب کرے۔ ٭ اخلاص ایک کاتب، رائٹر اور مصنف کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور قلم کے ساتھ حق بات لکھے اور کسی کو خوش کرنے کی خاطر یا کسی دنیاوی مفاد کے حصول کی خاطر حقائق کو تبدیل نہ کرے۔ ٭ اخلاص ایک مالدار آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ریاکاری کے بغیر محض اللہ کی رضا کی خاطر فقراء ومساکین کی امداد کرے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلنے دے کہ وہ ایسا کرتا ہے۔ ٭ اخلاص ایک ملازم کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی پوری دیانتداری کے ساتھ سرانجام دے اور پورا ڈیوٹی ٹائم اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں صرف کرے۔ ٭ اخلاص ایک نوکر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مالک کی خیرخواہی کرے اور اس کے مال اور اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ ٭ اخلاص ہر آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا اور حق والوں کا ساتھ دے اور ان کا دفاع کرے اور ظلم وباطل اور مجرموں کا ساتھ نہ دے اور نہ ہی ان کا دفاع کرے۔ الغرض یہ ہے کہ ’اخلاص ‘ ہر شخص کی تربیت کرتا ہے اور ہر انسان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اس کی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے پر آمادہ کرتاہے۔اور کسی قسم کی کمی وکوتاہی سے باز رکھتا ہے۔ اخلاص کی علامات معزز بھائیو اور لائق احترام بہنو ! یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں اخلاص ہے یا نہیں ہے ؟ اہل علم نے اس کی کچھ علامات بیان کی ہیں جن کی بناء پر یہ پتہ چل سکتا ہے کہ اخلاص ہے یا نہیں ہے۔آئیے وہ علامات بیان کرتے ہیں۔ 1۔عمل کرنے والے شخص کی نظر میں تعریف یا مذمت دونوں برابر ہوں۔کیونکہ اس کے مدنظر فقط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب حاصل ہو جائے، کوئی تعریف کرے یا مذمت کرے اس کی اس کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا ﴾[1] ’’ ہم تو تمھیں بس اللہ کی رضا کیلئے ہی کھلاتے ہیں، ہمیں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہئے اور نہ ہی شکریہ۔‘‘
[1] الدہـر76:9