کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 14
’’ تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔اور ہر آدمی کیلئے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘
اسی طرح مَعْن بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد یزید رضی اللہ عنہ نے چند دینار صدقہ کرنے کیلئے نکالے اور مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھ دئیے، میں مسجد میں گیا تو میں نے وہ دینار اٹھا لئے اور انھیں گھر لے آیا۔میرے والد نے کہا : ( وَاللّٰہِ مَا إِیَّاکَ أَرَدتُّ )
’’ اللہ کی قسم ! میں نے تمھیں دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔‘‘
چنانچہ میں انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا تاکہ آپ ہمارے جھگڑے میں فیصلہ فرمائیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْدُ وَلَکَ مَا أَخَذْتَ یَا مَعْنُ ) [1]
’’ اے یزید ! تمھارے لئے وہ ہے جس کی تم نے نیت کی۔اور اے مَعْن ! تمھارے لئے وہ ہے جو تم نے لے لیا۔‘‘ یعنی یزید رضی اللہ عنہ نے صدقہ کرنے کی نیت کی تھی، لہٰذا ان کی نیت کے مطابق وہ صدقہ ہو گیا۔اور معن رضی اللہ عنہ نے صدقہ کے دیناروں کو لے لیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کا مستحق قرار دیا۔اِس سے ثابت ہوا کہ ہر انسان کو اُس کے عمل سے وہی چیز ملتی ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔
10۔اخلاص کے ساتھ ایک انسان کے عمل کی قدر بڑھ جاتی ہے۔
چنانچہ اگر ہم جائزہ لیں تو بعض اوقات ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے دو اشخاص کی نمازوں میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔جس نمازی کی نماز میں اخلاص ہوتا ہے اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوتی ہے، اس نماز کی اللہ تعالیٰ کی ہاں بڑی قدر ہوتی ہے۔جبکہ اُسی نمازی کے پہلو میں کھڑے آدمی کی نماز میں اخلاص نہ ہو تو اس کی نماز کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں ہوتی۔اسی طرح باقی اعمال ہیں۔
اور اخلاص ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کو درست طریقے سے سر انجام دے۔چنانچہ
٭ اخلاص ایک جج کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ کیس کا بغور جائزہ لے کروہ اس کی گہرائی تک نہ پہنچے۔
٭ اخلاص ایک مدرس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے تدریسی عمل میں بھر پور محنت کرے اوراپنے طلبہ کو ہر بات تمام جزئیات کے ساتھ سمجھائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی کرے۔
[1] صحیح البخاری:1422