کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 135
اللہ تعالی نے عباد الرحمن کی صفات کے ضمن میں ان کی ایک صفت یوں ذکر فرمائی :
﴿ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ﴾[1]
’’ اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں رات گذارتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی اپنے متقی بندوں کی بعض صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے :
﴿إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ٭ آخِذِیْنَ مَا آتَاہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ ٭ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ ٭ وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾[2]
’’ بلا شبہ متقی ( اس دن ) باغات اور چشموں میں ہونگے۔جو کچھ ان کا رب ان کو دے گا وہ لے لیں گے۔وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔وہ رات کو کم سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت مغفرت مانگا کرتے تھے۔‘‘
پانچویں علامت : اللہ تعالی کے پسندیدہ اعمال کو سرانجام دینا
جس شخص کو اللہ تعالی سے سچی محبت ہو، وہ ان اعمال کو سر انجام دینے کا خاص طور پر اہتمام کرتا ہے جو اسے محبوب ہوتے ہیں۔اور ان اعمال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے نا پسند ہوتے ہیں۔
مثلا اللہ تعالی کو سب سے محبوب عمل اس کے فرائض کو پورا کرنا ہے۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : (( مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ……)) [3]
’’جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔اور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے ( یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔)
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَی اللّٰہِ مَا دَاوَمَ عَلَیْہِ صَاحِبُہُ وَإِنْ قَلَّ)) [4]
’’ اللہ تعالی کو سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی کرے چاہے وہ کم کیوں نہ ہو۔‘‘
اسی طرحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :
[1] الفرقان 25: 64
[2] الذاریات51 :15۔18
[3] صحیح البخاری :6502
[4] صحیح البخاری : 6465، صحیح مسلم :782واللفظ لہ