کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 131
اسی طرح اللہ تعالی سچے مومنوں کی چند صفات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ﴾[1]
’’اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے،) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔وہ مومنوں کے حق میں نرم اور کافروں کے حق میں سخت ہونگے۔وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہونگے۔‘‘
ان دونوں آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ سچے مومن سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی سے کرتے ہیں۔
مومن کی اللہ تعالی سے سب سے زیادہ محبت اس قدر ضروری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ اللہ تعالی سے اس کا سوال کرتے تھے اور فرماتے تھے :
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ،وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ،وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ،وَأَنْ تَغْفِرَ لِیْ وَتَرْحَمَنِیْ، وَإِذَا أَرَدتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُونٍ،وَأَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ )) [2]
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتا ہوں۔اور یہ کہ تو مجھے معاف کردے اور مجھ پر رحم فرما۔اورجب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اُس میں مبتلا کئے بغیر میری روح کوقبض کر لینا۔اور میں تجھ سے تیری محبت کا اور اُس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں تو تجھ سے محبت کرتا ہو، اسی طرح اُس عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تیری محبت کے قریب کردے۔‘‘
اللہ تعالی سے سچی محبت کی علامات :
پہلی علامت : کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر
جو مومن اللہ تعالی سے سچی محبت کرتا ہو وہ کثرت سے اس کا ذکر کرتا رہتا ہے اور اپنی زبان کو اس کے ذکر کے ساتھ تر رکھتا ہے۔
[1] المائدۃۃ5: 54
[2] جامع الترمذی :3235 وصححہ الألبانی