کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 12
ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا :
آپ کا خیال ہے کہ جو شخص جنگ میں اس لئے شریک ہو کہ اسے اجر وثواب بھی ملے اور شہرت بھی، تو اسے کیا ملے گا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَا شَیْیٔ ) ’’ اسے کچھ بھی نہیں ملے گا۔‘‘
اس آدمی نے یہ سوال تین مرتبہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُہُ) [1]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ کوئی عمل قبول نہیں کرتا سوائے اس کے جو خالص ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا کو طلب کیا گیا ہو۔‘‘
اِس سے ثابت ہوا کہ دین کو اللہ کیلئے خالص کرنا انتہائی ضروری ہے۔
5۔اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :
﴿ قُلْ اِِنِّیٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ ﴾[2]
’’ آپ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کرتا رہوں، دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے۔‘‘
اور جب جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے کریں تو یہ حکم یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت کیلئے بھی ہے۔
6۔اخلاص کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز ملعون ہے سوائے اس کے جو اللہ کیلئے خالص ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( اَلدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ مَلْعُونٌ مَّا فِیْہَا،إِلَّا مَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ ) [3]
’’دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب ملعون ہے، سوائے اس کے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کو طلب کیا جائے۔‘‘
7۔اخلاص کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے :
(لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ،وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ،لَا حَوْلَ
[1] سنن النسائی3140:۔وصححہ الألبانی
[2] الزمر11:39
[3] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی: 9