کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 107
کر ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا حکم دیا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :
(( بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ خِصَالًا سِتًّا : إِمْرَۃَ السُّفَہَائِ،وَکَثْرَۃَ الشُّرَطِ،وَقَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ، وَبَیْعَ الْحُکْمِ، وَاسْتِخْفَافًا بِالدَّمِ، وَنَشْأً یَتَّخِذُوْنَ الْقُرْآنَ مَزَامِیْرَ،یُقَدِّمُوْنَ الرَّجُلَ لَیْسَ بِأَفْقَہِہِمْ وَلَا أَعْلَمِہِمْ،مَا یُقَدِّمُوْنَہُ إِلَّا لِیُغَنِّیَہُمْ)) [1]
’’ تم چھ چیزوں کے آنے سے پہلے جلدی جلدی عمل کرلو : احمق لوگوں کی حکمرانی، پولیس کی کثرت، قطع رحمی، فیصلے کو ( رشوت کے بدلے میں ) بیچنا، خون ( بہانے ) کو ہلکا سمجھنا اور ایسے نوخیز بچوں کا آنا جو قرآن مجید کو راگ گانا بنا لیں گے، لوگ ان میں سے ایک کو اس لئے امام نہیں بنائیں گے کہ وہ سب سے زیادہ سمجھ دار اور سب سے بڑا عالم ہوگا، بلکہ اس لئے کہ وہ ان کے سامنے قرآن کو گا کر پڑھے۔‘‘
اِس حدیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے جلدی جلدی عمل کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فارغ اوقات کو نفع بخش امور میں مشغول کرنے سے انسان فتنوں کے شر سے بچ سکتا ہے۔
10۔صبر کرنا
یعنی مختلف آزمائشوں اور فتنوں کو برداشت کرنا اور ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْکَرْبِ،وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ))
’’ اور یقین کر لو کہ مدد صبر کے ساتھ آتی ہے اور ہر پریشانی کے بعد خوشحالی یقینی ہے۔اور ہر تنگی آسانی اور آسودگی کو لاتی ہے۔‘‘[2]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مِن وَّرَائِکُمْ أَیَّامَ الصَّبْرِ، لِلْمُتَمَسِّکِ فِیْہِنَّ بِمَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرُ خَمْسِیْنَ مِنْکُمْ ))
’’ تمھارے بعد صبر کے ایام آنے والے ہیں۔ان میں جو شخص اُس دین کو مضبوطی سے تھامے رکھے گا جس پر تم قائم ہو، تو اسے تم میں سے پچاس افراد کا اجر ملے گا۔‘‘[3]
[1] السلسلۃ الصحیحۃ :979
[2] مسند أحمد :2804۔وصححہ الأرناؤط۔الترمذی : 2516۔وصححہ الألبانی
[3] السلسلۃ الصحیحۃ : 494