کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 105
جَاہِلِیَّۃٍ)) [1]
’’ جو شخص اپنے حکمران سے کوئی ایسی چیز دیکھے جسے وہ نا پسند کرتا ہو تو اسے صبر کرنا چاہئے، کیونکہ جو آدمی جماعت سے بالشت بھر الگ ہو اور اسی حالت میں اس کی موت آ جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘
6۔فتنوں کے ایام میں خصوصی طور پر عبادت میں مشغول رہنا
کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( اَلْعِبَادَۃُ فِی الْہَرْجِ کَہِجْرَۃٍ إِلَیَّ)) [2]
’’ فتنوں میں عبادت کرنا ایسے ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا ہے۔‘‘
یعنی جب فتنوں کا دور ہو، قتل وغارت گری ہو رہی ہو، حق وباطل میں آمیزش کی جا رہی ہو، لوگ انتہائی مضطرب اور پریشان ہوں تو ایسے حالات میں کم ہی لوگ اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ان کی غفلت کے دوران جو شخص عبادت میں مشغول ہوگا وہ یقینا فتنوں کے شر سے محفوظ رہے گا۔
7۔تقوی اختیار کرنا
’ تقوی ‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ اللہ رب العزت کے عذاب کے ڈر کی وجہ سے اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اور اپنے دامن کو گناہوں سے بچائیں۔یوں آپ اللہ تعالی کے فضل وکرم کے ساتھ فتنوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ [3]
’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تو وہ تمھیں ( نور ِ بصیرت عطا کرکے حق وباطل میں ) فرق کرنے کی توفیق دے گا، تمھارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمھیں معاف کردے گا۔اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا ٭ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾[4]
’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اوراسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
[1] صحیح مسلم:1849
[2] صحیح مسلم :2948
[3] الأنفال8: 29
[4] الطلاق65: 2۔3