کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 102
ان سے محفوظ رہے گی۔
یہاں ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ ’شرعی علم ‘ شرعی علماء سے ہی حاصل کرنا چاہئے جن کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہے، نہ کہ ان لوگوں سے کہ جو کل تک سنگر ( گانا گاتے ) تھے اور آج ’سکالر ‘ بن کر ٹی وی کی سکرین پر ’ مفتی ‘ یا ’ مبلغ ‘ بنے بیٹھے ہیں۔اور نہ ہی اُن نام نہاد
’ مفتیان‘ سے کہ جو قرآن مجیدکی ایک آیت بھی صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں کوئی علم ہے۔اور نہ ہی ایسے لوگوں سے کہ جو سنی سنائی باتیں کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی جھوٹی اور من گھڑت روایات بیان کرتے ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
(( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلٰکِن یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا، اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُسًا جُہَّالًا،فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا)) [1]
’’ اللہ تعالی علم کو اِس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں (کے دلوں) سے کھینچ لے، بلکہ وہ علماء کی ارواح کو قبض کرکے علم کو اٹھائے گا۔یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو مفتی بنا لیں گے۔چنانچہ ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے، اِس طرح وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
بعض لوگ علمائے کرام کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کی طرف رجوع کرنا اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((لَیْسَ مِنْ أُمَّتِیْ مَن لَّمْ یُجِلَّ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا، وَیَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّہُ)) [2]
’’ وہ شخص میری امت میں سے نہیں جو ہمارے بڑے ( بزرگوں ) کا احترام نہ کرے اور ہمارے چھوٹے (بچوں ) پر ترس نہ کھائے اور اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہچانے۔‘‘
اسی طرح ایک اور بات کی تنبیہ بھی انتہائی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل بہت سارے لوگ ’ گُوگل ‘ کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں ! حالانکہ ’ گُوگل ‘ صحیح علم کی طرف بھی راہنمائی کرتاہے اور غلط کی طرف بھی۔حق کی طرف بھی اور باطل کی طرف بھی۔لہٰذا ’گُوگل ‘ کے ذریعے علم حاصل کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ علم
[1] صحیح البخاری : 100، صحیح مسلم :2673
[2] مسند أحمد :22807۔وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :101