کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 10
دوسری یہ کہ آپ اِس بات کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان سمجھیں کہ اس نے آپ کو اِس عمل کی توفیق دی ہے۔یہ اس لئے کہ تاکہ آپ کے دل سے خود پسندی نکل جائے۔
تیسری یہ کہ آپ اپنے عمل میں نرمی اور ٹھہراؤ اختیارکریں اور جلد بازی سے بچیں۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ( مَا جُعِلَ الرِّفْقُ فِیْ شَیْیئٍ إِلَّا زَانَہُ، وَمَا نُزِعَ مِنْ شَیْیئٍ إِلَّا شَانَہُ) [1]
’’ جس چیز میں نرمی اختیار کی جاتی ہے اسے وہ خوبصورت بنا دیتی ہے۔اورجس چیز سے نرمی نکال لی جاتی ہے ( اور اس میں سختی برتی جاتی ہے ) تو سختی اسے بد صورت بنا دیتی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ جلد بازی نفسانی خواہش کی اتباع ہے اور نرمی سنت نبویہ کی اتباع ہے۔
اور چوتھی یہ کہ جب آپ اپنے عمل سے فارغ ہوں تو آپ کے دل میں اس بات کا خوف ہو کہ کہیں اللہ تعالیٰ آپ کے عمل کو رد نہ کردے اور اسے قبول نہ کرے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤتُوْنَ مَآ اٰتَوا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ ﴾[2]
’’ اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں ( تو )حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
جو شخص ان چاروں چیزوں کو جمع کر لیتا ہے تو وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اپنے عمل میں مخلص ہو گا۔‘‘[3]
اخلاص کی اہمیت
1 ’اخلاص ‘ہر عبادت کی روح ہے۔اور ہر عبادت میں اس کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ایک جسم میں روح کی حیثیت ہوتی ہے۔جس طرح جسم بغیر روح کے مردہ ہوتا ہے اسی طرح عبادت بھی بغیر اخلاص کے مردہ ہوتی ہے۔جس طرح ایک جسم بغیر روح کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح ایک عبادت بھی بغیر اخلاص کے زندہ نہیں رہتی۔لہٰذا ہم سب کو اپنی عبادات کی زندگی کے لیے سوچنا چاہئے۔
2 ’ اخلاص ‘ دل کے اعمال میں سے ایک عمل ہے۔اور ایسا عمل ہے کہ جو دل کو منور کرتا ہے اور اسے جلا بخشتا ہے۔اور جس دل میں ’ اخلاص ‘ نہیں ہوتا وہ تاریک ہوتا ہے اور اس پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
اور چونکہ ’اخلاص ‘ دل میں ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے دلوں پر نظر رکھتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
[1] صحیح مسلم : 2594بنحوہ
[2] المؤمنون23: 60
[3] الجامع لشعب الإیمان البیہقی6475