کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 61
’’بے شک دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا۔لہذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ ، اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو ، عبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ اور صبح کے وقت ، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو۔‘‘[1] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّتًا وَّلَا مُتَعَنِّتًا ، وَلٰکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُّیَسِّرًا) ’’ بے شک اللہ تعالی نے مجھے مشقت میں ڈالنے والا اور لوگوں کو مشکل اعمال پر مجبور کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا ، بلکہ تعلیم دینے والا اور آسانیاں پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘[2] 5۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی منفعت کے خواہشمند رہتے اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کردیا تھا ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید فکر مند اور غمگین رہتے تھے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’وہ تمھاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، مومنوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ ‘‘[3] رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ہدایت کیلئے اور اسے جہنم سے بچانے کیلئے کس قدر حریص تھے ، اس کا اندازہ آپ اس بات کر سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِنَّمَا مَثَلِیْ وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا ، فَلَمَّا أَضَائَ تْ مَا حَوْلَہُ جَعَلَ الْفِرَاشُ وَہٰذِہِ الدَّوَابُّ الَّتِیْ تَقَعُ فِیْ النَّارِ یَقَعْنَ فِیْہَا ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَزَعُہُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ ، فَیَقْتَحِمْنَ فِیْہَا ، فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِیْہَا) ’’ بے شک میری اور لوگوں کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو آگ جلائے ، پھر جب آگ اپنے ارد گرد کو روشن کردیتی ہے تو پتنگے اور یہ جانور جو کہ آگ میں کود پڑتے ہیں وہ آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔آگ جلانے والا آدمی انھیں آگ سے پرے ہٹاتا ہے لیکن وہ اس پر غالب آکر آگ میں کود پڑتے ہیں۔اور میں بھی تمھیں تمھاری کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں تاکہ تم جہنم کی آگ میں نہ چلے جاؤ لیکن(تم مجھ سے دامن چھڑا کر)زبردستی جہنم کی آگ میں داخل ہوتے ہو۔‘‘[4]
[1] [ البخاری۔کتاب الإیمان:۳۹] [2] [ مسلم:۱۴۷۸] [3] [ التوبۃ:۱۲۸ ] [4] [ البخاری۔الرقاق باب الانتہاء عن المعاصی:۶۴۸۳، مسلم۔الفضائل باب شفقتہ صلي الله عليه وسلم علی أمتہ:۲۲۸۴]