کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 60
3۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے وہ عمل پسند نہیں کرتے تھے جو اس کی مشقت کا باعث بنتا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ…﴾ ’’ تمھارے پاس ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تم میں سے ہی ہیں ، جن کو تمھاری مشقت کی بات نہایت ہی گراں گذرتی ہے۔‘‘[1] یہی وجہ ہے کہ جب رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تین راتیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز تراویح باجماعت پڑھائی اور چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے تو نماز فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ مسنونہ پڑھا اور ارشاد فرمایا:(أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّہُ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ مَکَانُکُمْ ، وَلٰکِنِّیْ خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْہَا) ’’ لوگو ! آج رات مسجد میں تمہاری موجودگی مجھ سے مخفی نہیں تھی لیکن(میں مسجد میں اس لئے نہ آیا کہ)مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ ہو جائے اور پھرتم اس سے عاجز آ جاؤ۔‘‘[2] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ) ’’اگر مجھے امت پرمشقت کا اندیشہ نہ ہو تا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘ [3] 4۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے شرعی احکامات میں آسانی کو پسند کرتے تھے اور سختی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو دعوتِ اسلام کیلئے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ(یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا ، وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا) ’’ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنااور انھیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا۔اور ان کوخوشخبری دینا ، دین سے نفرت نہ دلانا۔اور دونوں مل جل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا۔‘‘[4] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ، وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ)
[1] [ التوبۃ:۱۲۸] [2] [ البخاری:۲۰۱۲ ، مسلم:۷۶۱ ] [3] [مسلم:۲۵۲] [4] [ البخاری:۳۰۳۸]