کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 59
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیگر انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں اپنی امت کے کتنے خیرخواہ اور اس کیلئے کتنے مہربان تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی کر سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہُ ، وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَہِیَ نَائِلَۃٌ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مَنْ مَّاتَ مِنْ أُمَّتِی لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا)
’’ ہر نبی کی ایک دعا(اس کی امت کے حق میں)قبول کی جاتی ہے۔چنانچہ ہر نبی نے وہ دعا دنیا میں ہی کرلی۔جبکہ میں نے اپنی دعا کو مؤخر کردیاہے اور وہ میں قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کی صورت میں کروں گا۔اور میری شفاعت ہر اس شخص کو نصیب ہوگی جو اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ہو۔ ‘‘[1]
2۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کیلئے ہر چیز کو بیان کر دیا اور امت کی خیر خواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(مَا بَقِیَ شَییْئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ)
’’ ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اسے تمھارے لئے بیان کردیا گیا ہے۔‘‘[2]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر سے یہ سوال کیا تھا کہ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ تب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تھا:(نَشْہَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ)
’’ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے یقینا دین پہنچا دیا۔(ذمہ داری)ادا کردی اور امت کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘‘ [3]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو اپنی امت کو ایک واضح شریعت دے کر گئے جس میں کوئی اخفاء یا ابہام نہیں تھا اور جو شبہات سے بالکل خالی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا ، لَا یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْ إِلَّا ہَالِکٌ)
’’ میں نے تمھیں ایک واضح اور صاف ستھری ملت پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے۔ صرف ہلاک ہونے والا شخص ہی میرے بعد اس سے انحراف کر سکتا ہے۔‘‘[4]
[1] [ مسلم:۱۹۹]
[2] [ الصحیحۃ للألبانی:۱۸۰۳]
[3] [ مسلم:۱۲۱۸]
[4] [ابن ماجہ:۴۳۔وصححہ الألبانی]