کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 58
یَعْتَدُوْنَ﴾ ’’ بنو اسرائیل میں سے جو لوگ کا فر ہو گئے ان پر داؤد علیہ السلام اور عیسی بن مریم علیہ السلام کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے آگے نکل گئے تھے۔‘‘[1] جبکہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر لعنت نہیں بھیجی۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: (إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً)’’ میں لعنت بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘[2] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر اپنی امت کیلئے مغفرت کی دعا کیاکرتے تھے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:﴿ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’ اے میرے رب ! انھوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے ، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ آیت بھی تلاوت کی: ﴿ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ ’’ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور فرمانے لگے:(اَللّٰہُمَّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ)’’ اے اللہ میری امت ، میری امت ! ‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ اے جبریل ! جاؤ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس۔اور تیرا رب اگرچہ خوب جانتا ہے لیکن جاکر ان سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ لہذا حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا تھا وہ انھیں بتایا۔ اور جب حضرت جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو بتایا(حالانکہ وہ تو پہلے ہی جانتا تھا)تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دوبارہ بھیجا اور فرمایا:(إِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِیْ أُمَّتِکَ وَلاَ نَسُوْئُ کَ)’’ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور آپ کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔‘‘[3]
[1] [ المائدۃ:۷۸] [2] [ مسلم:۲۵۹۹] [3] [ مسلم:۳۴۶]