کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 502
خریدنے والا اُس شخص کو ڈھونڈے جس نے اس کے پاس یہ مال بیچا تھا۔‘‘[1]
تو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور جو حدیث ہم نے ابھی ذکر کی ہے اُس کے خلاف ہے۔
13۔ مسجد میں خرید وفروخت ممنوع ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(إِذَا رَأَیْتُمْ مَّن یَّبِیْعُ أَوْ یَبْتَاعُ فِی الْمَسْجِدِ فَقُولُوْا:لَا أَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ)
’’ جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز فروخت کرتے ہوئے یا خرید کرتے ہوئے دیکھو تو کہو:اللہ تمھاری تجارت میں کوئی برکت نہ ڈالے۔‘‘[2]
14۔ حیلہ سازی کے ذریعے سودی لین دین کرنا
سودی لین دین بلا شبہ حرام ہے۔قرآن وحدیث کے واضح دلائل اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔بلکہ اللہ تعالی نے سودی لین دین کی حرمت معلوم ہونے کے بعد اسے جاری رکھنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔لیکن صد افسوس ہے ان لوگوں پر جو حیلہ سازی کے ذریعے سودی لین دین جاری رکھتے ہیں۔ویسے تو اس کی متعدد صورتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ، لیکن ہم اس کی ایک ہی صورت کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں۔ اور وہ ہے بیع عِینہ۔
’بیع عِینہ ‘ یہ ہے کہ ایک شخص کو نقد پیسوں کی ضرور ت ہوتی ہے۔تو وہ کسی سے کوئی چیز مثلا گاڑی ایک لاکھ روپے میں ایک سال کے وعدے پر خرید لیتا ہے۔پھر ایک آدھ دن کے بعد وہ وہی گاڑی اسی آدمی کو نوے ہزار روپے میں نقد قیمت پرفروخت کردیتا ہے۔اور نوے ہزار وصول کر لیتا ہے۔پھر سال گزرنے پر وہ اسے ایک لاکھ روپے دے دیتا ہے۔اِس طرح اسے فوری طوری پر نوے ہزار روپے مل گئے۔اور گاڑی کے مالک کو ایک سال بعد دس ہزار روپے منافع مل گئے جو در اصل نوے ہزار روپے کا ایک سال کا سود ہے۔گاڑی کی بیع کو درمیان میں لا کر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ بیع عین سود پر مشتمل ہے۔اس لئے یہ حرام ہے۔
15۔ خوردنی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے
بعض تاجر حضرات خوردنی اشیاء کو ذخیرہ کر لیتے ہیں ، جبکہ مارکیٹ میں ان کی اشد ضرورت ہوتی ہے ، وہ اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ جب ان اشیاء کی قلت ہوگی تو یقینی طور پر ان کا ریٹ بڑھ جائے گا ، چنانچہ جب واقعتا ریٹ بڑھ جاتا
[1] [ ابو داؤد:۳۵۳۱ ، نسائی:۴۶۸۱]
[2] [الترمذی:۱۳۲۱۔وصححہ الألبانی ]