کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 501
’’ اور تم گناہ اور زیادتی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔‘‘[1] اگر مسروقہ مال کے مالک کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کا مال فلاں شخص نے لا علمی میں خرید لیا ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس سے وہی مال پیسوں سے خرید لے۔اور اگر چاہے تو اس سے اس کے چور کے بارے میں معلومات لے کر اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرے۔ اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ(إِذَا کَانَ الَّذِی ابْتَاعَہَا(یَعْنِی السَّرِقَۃَ)مِنَ الَّذِی سَرَقَہَا غَیْرَ مُتَّہَمٍ ، یُخَیَّرُ سَیِّدُہَا ، فَإِنْ شَائَ أَخَذَ الَّذِیْ سُرِقَ مِنْہُ بَثَمَنِہَا ، وَإِنْ شَائَ اتَّبَعَ سَارِقَہَا) ’’ وہ شخص جس نے مسروقہ مال چور سے خرید کیا ہو ، اگر وہ اس جرم میں شریک نہ ہو اور لا علمی میں اس نے وہ مال خریدا ہو تو اس کے مالک کو اختیار ہے کہ اگر وہ چائے تو چوری شدہ مال کی قیمت ادا کرکے لے لے۔اور اگر چاہے تو اس کے چور کا پیچھا کرے۔‘‘[2] اِس حدیث میں اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تینوں خلفائے راشدین ، ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی اس کے متعلق یہی فیصلہ فرمایا تھا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ اِس حدیث میں دو اہم فائدے ہیں:پہلا یہ کہ جو شخص اپنا مسروقہ مال کسی ایسے شخص کے پاس پڑا ہوا دیکھے کہ جو اس کی چوری میں ملوث نہیں ہوا بلکہ اس نے غاصب یا سارق سے اسے خرید کیا تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اس سے لے لے ، الا یہ کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے۔اور اگر وہ چاہے تو حاکم کے ہاں غاصب یا سارق کے خلاف اپیل کرسکتا ہے…‘‘[3] بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگر صاحب مال کو معلوم ہو جائے کہ اس کا مال فلاں شخص کے پاس موجود ہے تو وہ بے روک ٹوک اسے لے جا سکتا ہے۔رہی مشتری کی رقم جو وہ چور کو ادا کر چکا تو اس کی یہی صورت ہے کہ وہ چور کو تلاش کرکے اس سے اپنی رقم واپس لے۔ورنہ اس کی رقم ضائع ہو جائے گی۔ان حضرات نے اس کی دلیل سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَن وَّجَدَ عَیْنَ مَالِہِ عِنْدَ رَجُلٍ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ ، وَیَتَّبِعُ الْبَیِّعُ مَنْ بَاعَہُ) ’’ جو شخص اپنا مال بعینہ کسی دوسرے آدمی کے پاس پڑا ہوا پالے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔اور مسروقہ مال کو
[1] [ المائدۃ:۲] [2] [ النسائی:۴۶۸۰۔ وصححہ الألبانی ] [3] [ الصحیحۃ للألبانی:۶۰۹ ]