کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 497
ایک اورروایت میں یہ الفاظ ہیں:(لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ)’’ تم وہ چیز نہ بیچو جو تمھارے پاس موجود نہ ہو۔‘‘[1]
اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس غیر موجود چیز کا وہ سودا کرے گا ، ہو سکتا ہے کہ وہ اسے نہ ملے ، یا ویسی نہ ملے جیسی کا اس نے سودا طے کیا ! اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قیمت پر نہ ملے جس کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے اس کا سودا کیا۔چونکہ یہ امکانات موجود ہیں اس لئے وہ کسی بھی ایسی چیز کا سودا نہ کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو۔
5۔ منڈی یا بازار میں پہنچنے سے پہلے ہی کسی مال کا سودا طے نہ کیا جائے۔
شہر میں رہنے والے تاجر حضرات منڈی یا بازار کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہوتے ہیں اور باہر سے تجارتی ساز وسامان لانے والا بائع اُس سے واقف نہیں ہوتا ، چنانچہ اس کی لا علمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اسے راستہ میں ہی روک کر کم قیمت پر اس کے ساتھ سودا طے کر لیتے ہیں۔اِس سے انھیں تو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن بائع کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس لئے یہ معاملہ درست نہیں ہے۔
حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ(أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَہَی أَنْ تُتَلَقَّی السِّلَعُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْأسْوَاقَ)
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بات سے منع فرمایا کہ بازاروں میں پہنچنے سے پہلے ہی تجارتی مال کا آگے جا کر سودا کیا جائے۔‘‘[2]
جس بائع کے ساتھ اِس طرح ہاتھ ہو جائے ، پھر وہ بازار آئے اور اسے پتہ چلے کہ اُس کے ساتھ تو ہاتھ ہو چکا ہے تو اسے اس سودے کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(لَا تَلَقَّوُا الْجَلَبَ ، فَمَنْ تَلَقّٰی فَاشْتَرَی مِنْہُ ، فَإِذَا أَتَی سَیِّدُہُ السُّوقَ فَہُوَ بِالْخِیَارِ)
’’ غلہ وغیرہ کے قافلوں کو آگے جا کر مت ملو۔لہذا جو شخص آگے جا کر ملے اور بائع سے خرید لے ، پھر اس کا مالک بازار میں آئے تو اسے سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘[3]
6۔ ماپ تول کے بغیر کسی ڈھیر کا سودا کرنا درست نہیں ہے
غلے وغیرہ کا وہ ڈھیر جس کا وزن معلوم نہ ہو اس کا وزن کئے بغیر سودا کرنا ممنوع ہے۔
[1] [ ترمذی:۱۲۳۳ ، ابو داؤد:۳۵۰۵ ، نسائی:۴۶۱۳ ، ابن ماجہ:۲۱۸۷۔وصححہ الألبانی ]
[2] [ البخاری:۲۱۶۵، ومسلم:۱۵۱۷ واللفظ لہ ]
[3] [ مسلم:۱۵۱۹ ]