کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 496
اِس سلسلے میں ایک اثر بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے ، جسے امام بخاری نے ذکر کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ایک شخص اگر کوئی چیز دس میں خرید کرے تو وہ اسے گیارہ میں بیچ سکتا ہے۔نیز اس پر جو خرچہ ہوا ہو وہ اس پر بھی منافع کما سکتا ہے۔[1] اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تاجر عام حالات میں کسی بھی چیز کی اصل قیمت پر اور اس کے اخراجات اور بار برداری پر دس فیصد تک نفع لے سکتا ہے۔واللہ اعلم جبکہ آج کل صورت حال بالکل مختلف ہے۔چنانچہ وہ چیز جو ’مثال کے طور پر ‘تاجر کو پانچ سو کی پڑتی ہے ، وہ اس کی قیمت ایک ہزار یعنی سو گنا زیادہ بتاتا ہے۔پھر وہ کسی کو نو سو میں ، کسی کو آٹھ سو میں اور کسی کو سات سو میں پھانس لیتا ہے۔الغرض یہ کہ جیسے کسی کا داؤ لگتا ہے وہ اسی طرح لگا لیتا ہے۔کیونکہ اس کا اصل مقصد جائز منافع کمانا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنا ہے۔صارفین کیلئے سہولتیں پیدا کرنا نہیں ، بلکہ ان کی مشکلات میں اور اضافہ کرنا ہے۔ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰه 3۔ سودا منسوخ کرنے کا اختیار سودا طے ہوجانے کے بعد جب تک بائع اور خریدار ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں ، ان میں سے کوئی بھی اس سودے کو منسوخ کر سکتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا…) ’’ خریدار اور بائع کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودے کو حتمی شکل دے دیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں…‘‘[2] جبکہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ایک دفعہ خریدار کے منہ سے ایک بات نکل جائے ، پھر فورا ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اُس قیمت پر اسے نہ خریدنا چاہے تو بائع اسے دبا لیتا ہے اور آس پاس کے لوگوں سے بھی دباؤ ڈلواتا ہے کہ وہ اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات کو پورا کرے اور ہر حال میں اسے اُس قیمت پر خریدلے جو اس کے منہ سے نکل گئی تھی۔یہ طرزِ عمل بالکل غلط ہے اور جو حدیث ہم نے ابھی ذکر کی ہے اس کے سراسر خلاف ہے۔ 4۔ جو چیز اپنے پاس موجود نہ ہو اس کا سودا نہ کیا جائے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ(نَہَانِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ أَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِیْ) ’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ میں اس چیز کا سودا کروں جو میرے پاس موجود نہیں۔‘‘
[1] [ صحیح البخاری۔کتاب البیوع باب من أجری أمر الأمصار علی ما یتعارفون…] [2] [ البخاری:۱۹۷۳ ، مسلم:۱۵۳۲]