کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 495
اور دھونس ودھاندلی کی بجائے خوشی خوشی معاملہ طے کریں۔بائع اپنے مال کا بھاؤ بتائے ، پھر خریدار کو سوچنے کا موقع دے ، اگر اسے وہ بھاؤ پسند ہو تو خرید لے ، اگر پسند نہ ہو تو نہ خریدے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾
’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو(تو ٹھیک ہے۔)‘‘[1]
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ(لَا یَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَیْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ)
’’ بائع اور خریدار رضامندی کی حالت میں ہی کسی چیز کی بیع سے جدا ہوں۔‘‘[2]
2۔ شرح منافع کیا ہونی چاہئے ؟
اسلام میں شرح منافع کی تحدید نہیں کی گئی اور اسے محنت ومزدوری ، اخراجات ، بار برداری اور لاگت وغیرہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔کیونکہ ہر کاروبار میں یہ چیزیں ایک جیسی نہیں بلکہ کم وبیش ہوتی ہیں۔تاہم ایسا بھی نہیں کہ اس معاملے میں شریعت نے کاروباری حضرات کو بالکل ہی آزاد چھوڑ دیا ہو۔بلکہ اس نے کچھ اصول متعین کردئیے ہیں جن کی روشنی میں منافع کی شرح کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ان میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ کاروباری حضرات ہرمسلمان کی خیرخواہی کریں اوراپنی مصلحت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مصلحت کا بھی خیال رکھیں۔اور اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ عامۃ الناس کا بھی فائدہ سوچیں۔نہ وہ اپنا نقصان کریں اور نہ ہی گاہکوں کا نقصان برداشت کریں۔کسی بھی چیز کی لاگت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا جائز نفع کمائیں۔اور کوشش کریں کہ عام ضروریات تک پبلک کی رسائی آسان سے آسان تر ہو۔
اسی طرح دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ہر وہ چیز اس کیلئے نا پسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہے۔اب ظاہر ہے کہ ایک تاجر جب خود خریدار ہو گا تو وہ یہ چاہے گا کہ ہر چیز اسے سستے داموں مل جائے۔اور وہ قطعا یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی چیز اسے مہنگے داموں فروخت کی جائے۔لہذا جس طرح وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے کہ اس سے جائز نفع ہی لیا جائے اسی طرح اسے یہ بھی پسند ہونا چاہئے کہ وہ اپنے بھائی سے بھی جائز نفع ہی کمائے۔اور جس طرح وہ اپنے لئے نا پسند کرتا ہے کہ اس سے ناجائز نفع نہ کمایا جائے اسی طرح اسے یہ بھی نا پسند ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے نا جائز نفع کمائے۔
[1] [ النساء:۲۹]
[2] [ ترمذی:۱۲۴۸۔ وصححہ الألبانی ]