کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 494
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:اے اللہ کے رسول ! ہمیں اس سے بہتر اونٹ ہی ملا ہے ، اُس جیسا نہیں ملا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَعْطُوْہُ فَإِنَّ مِنْ خَیْرِکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَائً ا)
’’ اسے وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں بہتر ہو۔‘‘[1]
10۔ خرید وفروخت کے دوران نماز اور اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ٭ رِجَالٌ لاَّ تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ٭ لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾
’’ ان گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ، ان میں وہ لوگ صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں اللہ کے ذکر ، اقامت ِ صلاۃ اور ادائے زکاۃ سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت۔وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔تاکہ وہ جو عمل کرتے ہیں اللہ انھیں اس کا بہترین بدلہ دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے۔‘‘[2]
محترم حضرات ! ان آیات میں ذرا غور فرمائیے۔اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو تجارت اور خرید وفروخت میں مشغول رہتے ہوئے اللہ کے گھروں(یعنی مساجد)میں بھی جاتے ہیں ، جہاں وہ صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، پانچ وقتی نماز پابندی سے اور با جماعت ادا کرتے رہتے ہیں اور اپنے مال کی زکاۃ بھی دیتے رہتے ہیں۔وہ قیامت کے روز اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے احکامات سے غافل نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی ان کے اعمال کا بہترین بدلہ بھی دے گا اور اپنے فضل وکرم سے مزید بھی عطا کرے گا۔اور ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالی بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔
خرید وفروخت کے احکام
محترم حضرات ! خرید وفروخت کے آداب بیان کرنے کے بعد اب ہم خرید وفروخت کے چند اہم احکام قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔
1۔ فریقین کی باہمی رضامندی
خرید وفروخت اور لین دین میں بائع اور خریدار کی باہمی رضامندی از حد ضروری ہے۔لہذا دونوں فریق جبر واکراہ
[1] [ البخاری:۲۳۰۶، مسلم:۱۶۰۱]
[2] [النور:۳۶۔ ۳۸]