کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 493
قومِ شعیب علیہ السلام کو ان کے اسی جرم کی پاداش میں اور حضرت شعیب علیہ السلام پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے دنیا میں ہی بد ترین عذاب چکھا دیا۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس جرم کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ) ’’ جوقوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالی ، مہنگائی اور بادشاہ کے ظلم میں جکڑ لیا جاتا ہے۔‘‘[1] اور آج ہم انہی چیزوں کا سامنا کر رہے ہیں ، چنانچہ مہنگائی کا طوفان ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ، ہر دس پندرہ دن میں ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔اور اس پر ستم یہ ہے کہ حکمران ہر آئے دن نئے نئے ٹیکس لگا کر ظلم کی انتہاء کر ہے ہیں۔یوں بیچاری عوام مہنگائی اور ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے… لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اِس ظلم وستم کا سبب کیا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب در اصل خود عوام کے اپنے کرتوت ہیں ، انہی کرتوتوں میں سے ایک کرتوت ماپ تول میں کمی کرنا بھی ہے ، جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی کہ جب لوگ اِس طرح کریں گے تو ان پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیا جائے گا۔لہذا ہمیں اپنی اصلاح کرتے ہوئے اِس جرم سے اور لین دین کے معاملات میں دیگر جرائم سے سچی توبہ کرنی چاہئے۔تاکہ اللہ تعالی ہم سے راضی ہو جائے اور وہ ہمیں ظالم حکمرانوں سے نجات دلائے۔ ماپ تول میں کمی کرنے کی بجائے کچھ زیادہ ہی دینا چاہئے۔جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے گئے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو مزدوری لے کر وزن کیا کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:(زِنْ وَارْجِحْ)’’ وزن کرتے وقت قدرے جھکتا تول۔‘‘ یعنی کچھ زیادہ ہی دیا کر۔[2] اِس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بائع کو یہ ترغیب دی کہ وہ کچھ زیادہ ہی دے ، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائیگی کرنے والے کو بھی ترغیب دی کہ وہ بہتر انداز سے ادا کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا(جو ایک اونٹ تھا)تقاضا کرنے آیا تو اس نے آپ سے سخت کلامی کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا:(دَعُوْہُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا)’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ حق والا(سختی سے)بات کرسکتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(أَعْطُوْہُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّہ)’’ اسے اِس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔‘‘
[1] [ ابن ماجۃ:۴۰۱۹۔وصححہ الألبانی ] [2] [ ابو داؤد:۳۳۳۶، ترمذی:۱۳۰۵ ، نسائی:۴۵۹۲۔وصححہ الألبانی ]