کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 41
والاہے۔‘‘[1] اِس حدیث میں(بِعِبَادِہِ)سے مراد اللہ کے مومن بندے ہیں۔جیسا کہ اسی حدیث کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:(وَلَا اللّٰہُ بِطَارِحٍ حَبِیْبَہُ فِی النَّارِ)’’ جس طرح یہ عورت اپنے بیٹے کو آگ میں پھینکنے والی نہیں، اسی طرح اللہ بھی اپنے پیارے بندے کو جہنم میں پھینکنے والا نہیں۔‘‘[2] ’’ پیارے بندے ‘‘ سے مراد مومن ہی ہو سکتا ہے۔کافر نہیں ہو سکتا۔کیونکہ کافر اللہ تعالی کو محبوب نہیں بلکہ نہایت ہی ناپسندیدہ ہوتا ہے۔﴿اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ ﴾[3] ٭ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور ہر چیز کو شامل ہے۔عاقل کو بھی اور غیر عاقل کو بھی ، حیوان کو بھی اور انسان کو بھی ، فرشتوں کو بھی اور جنوں کو بھی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤمِنُوْنَ ٭ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ﴾ ’’ اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔لہذا میں اُن کیلئے رحمت ہی لکھوں گاجو متقی ہیں ، زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔اور اس رسول کی اتباع کرتے ہیں جو نبی ٔ اُمی ہے…‘‘[4] اِس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت ویسے تو دنیا میں ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، لیکن قیامت کے روز اس کی رحمت کے مستحق بس وہ لوگ ہونگے جو متقی ہونگے ، زکاۃ ادا کریں گے ، اللہ کی آیات پر ایمان لائیں گے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں گے۔ اسی طرح اس کا فرمان ہے:﴿ فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ ’’ پھر اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو ان سے کہئے کہ تمھارا رب بہت وسیع رحمت والاہے۔اور مجرموں سے اس کا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔‘‘[5] یعنی ان کے جھٹلانے کے باوجود اللہ تعالی کا عذاب ان پر نازل نہیں ہو رہا کیونکہ وہ بہت ہی وسیع رحمت والا ہے۔البتہ قیامت کے روز ان مجرموں کو اس کا عذاب ضرور ملے گا۔ اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤمِنُوْنَ بِہٖ
[1] [ البخاری:۵۹۹۹،مسلم:۲۷۵۴] [2] [ رواہ أحمدوغیرہ وصححہ الحاکم وأقرہ الذہبی ] [3] [ الروم:۴۵] [4] [ الأعراف:۱۵۶ ] [5] [ الأنعام:۱۴۷]