کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 30
ذلیل وخوار اور خسارے والا ہو گا۔‘‘[1]
نہ صرف خود مسلمان کو نماز قائم کرنی چاہئے بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہئے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَأمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلاَۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لاَ نَسْأَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی﴾
’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے۔ ہم آپ سے رزق نہیں مانگتے ، وہ تو ہم خود آپ کو دیتے ہیں۔ اور انجام(اہلِ)تقوی ہی کیلئے ہے۔‘‘[2]
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ ، وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِیْنَ)
’’ تمھارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں(اور نماز نہ پڑھیں)تو انھیں اس پر سزا دو۔‘‘ [3]
دین اسلام کی یہ بہت بڑی خصوصیت ہے کہ مسلمان اپنے دن کا آغاز بھی اللہ تعالی کے سامنے سر بسجود ہو کر کرتا ہے اور دن کا اختتام بھی اس کے سامنے جھک کر اور اس سے دعا مانگ کرکرتا ہے۔یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالی کا محتاج ہے۔اس کے سوا اس کیلئے اورکوئی چارۂ کار نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنی محتاجی اور عاجزی وانکساری کا اظہار دن اور رات میں پانچ مرتبہ اس کے سامنے جھک کر کرتا ہے۔
اسی طرح نماز کے حوالے سے اسلام کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ نماز کیلئے چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ مساجد سے اذان کہی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالی کی توحید کا اعلان اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے مسلمانوں کو اللہ کے گھروں میں جمع ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔چنانچہ وہ باجماعت نمازیں ادا کرکے اپنے دلوں کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔یہ وہ عظیم ترین عبادت ہے جو بندوں کو اللہ تعالی سے جوڑتی ہے اور ان کے دلوں میں اس کی محبت کو اجاگر کرتی ہے۔یقینا اس طرح کی عبادت کا وجود کسی اور دین میں نہیں ہے۔
تیسری بنیاد:زکاۃ ادا کرنا۔یعنی مسلمانوں میں جو مالدار لوگ ہوں وہ اپنے اموال کی ایک خاص مقدار اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کو دیں جو غریب اور محتاج ہوں۔ یہ بھی دین اسلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے کہ مال ودولت کا ارتکازاس کے ماننے والوں میں سے ایک خاص طبقہ میں ہی نہیں ہو تا ، بلکہ اسلامی معاشرہ میں بسنے والے وہ محتاج
[1] [ رواہ الطبرانی فی الأوسط۔السلسلۃ الصحیحۃ:۱۳۵۸]
[2] [طہ:۱۳۲]
[3] [احمد ، ابو داؤد۔صحیح الجامع للألبانی:۵۸۶۸ ]