کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 28
جائے اور ان کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے۔نیز ہر عبادت اللہ کی رضا کیلئے ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو کیونکہ جو عبادت اللہ کی رضا کیلئے انجام نہ دی جائے اس کی اللہ تعالی کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ، اسی طرح جو عبادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہ ہو وہ بھی اللہ تعالی کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔یہ دین اسلام میں عبادت کی قبولیت کیلئے ایک بنیادی اصول ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ﴾
’’ اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔‘‘[1]
6۔ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کا برحق کلام مانا جائے۔اسے پڑھا جائے ، اس میں غور وفکر کرکے اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اسے اپنا دستور حیات بنا کر اس پر عمل کیا جائے۔یہ دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول بھی ہے اور یہ اِس دین کی بہت بڑی خصوصیت بھی ہے کہ اس کا جو اصل ماخذ ومنبع ہے(یعنی قرآن مجید)وہ ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اور جب تک یہ محفوظ رہے گا دین اسلام بھی محفوظ رہے گا۔
7۔ دین اسلام مسلمان کو اِس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ دنیا میں اس کی زندگی عارضی ہے ، اسے یقینی طور پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور مرنے کے بعد اسے قیامت تک یا جنت کی نعمتوں میں یا عذاب ِقبر میں رہنا ہے اور پھر قیامت کے روز اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونا ہے۔یہ دین اسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے کہ وہ مسلمان کو دنیا کی رنگینیوں سے دل لگانے سے منع کرتا اور آخرت کیلئے عمل کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔
8۔ دین ِ اسلام مسلمان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اچھی اور بری(ہر قسم کی)تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔یعنی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اور جو کچھ ہوچکا ہے، نیز جو کچھ ہونے والا ہے اور جو نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا ؟ سب کچھ اسے معلوم ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر تا ہے۔ ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہی واقع ہوتی ہے۔
دین اسلام مسلمان کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ ہر قسم کی بھلائی، عدل اور حکمت سے پُر ہے۔ جو شخص اس پر مطمئن ہوجاتا ہے وہ حیرت، تردد اور پریشانی سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی میں بے قراری اور اضطراب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ کسی چیز کے چھن جانے سے غمزدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ رہتا ہے۔بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار اور آسودہ حال ہوتا
[1] [ محمد:۳۳ ]