کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 24
یوں یہ دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔
حجۃ الوداع کے موقعہ پر اللہ تعالی نے دین کو مکمل کرنے کا اعلان یوں فرمایا:
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾
’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا۔‘‘[1]
اِس مکمل دین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت تک پہنچا دیا تھااور امت کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:(مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِہٖ ، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْہُ)
’’ میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کردے۔اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کردے۔ ‘‘[2]
نیز فرمایا:(مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہٖ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِہٖ ، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَہَاکُمْ عَنْہُ إِلَّا قَدْ نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ)
’’ اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے۔اور اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے۔‘‘[3]
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو۔لہذا اِس دین میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے اور دین میں ہر نیا کام اور ہر نیا طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
(مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)
’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ [4]
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:(مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ)
’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ ‘‘
[1] [ المائدۃ:۳ ]
[2] [حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی ، ص ۱۰۳]
[3] [ المرجع السابق ]
[4] [ البخاری:۲۶۹۷ ، مسلم:۱۷۱۸ ]