کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 23
میں روزہ چھوڑ دیں اور دیگر دنوں میں ان ایام کے روزے قضا کر لیں۔پھر ارشاد فرمایا:﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾
’’ اللہ تعالی تمھارے لئے آسانی چاہتا ہے ، وہ تمھارے لئے تنگی نہیں چاہتا۔‘‘[1]
3۔ حضرت عروۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ، آپ کے سر سے وضو یا غسل کا پانی گر رہا تھا۔آپ نے نماز پڑھائی۔نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے سوالات کرنا شروع کردئیے اور کہنے لگے:یا رسول اللہ ! کیا ہم پر اس چیزمیں کوئی حرج ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فر مایا:(لَا یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّ دِیْنَ اللّٰہِ فِی یُسْرٍ)’’ نہیں کوئی حرج نہیں ہے ، لوگو ! اللہ کے دین میں یقینا آسانی ہے۔‘‘[2]
4۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃالوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا شروع کر دئیے۔چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا:اے اللہ کے رسول ! مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے حلق قربانی کرنے سے پہلے کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اِذْبَحْ وَلَا حَرَجَ)’’ جاؤ قربانی کر لو اور اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘
پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا:اے اللہ کے رسول ! مجھے بھی پتہ نہیں چلا اور میں نے قربانی رمی کرنے سے پہلے کر لی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اِرْمِ وَلَا حَرَجَ)’’ جاؤ رمی کرلو اور اس میں کوئی حرج نہیں‘‘
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امور کی تقدیم وتاخیر کے بارے میں جو سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اِفْعَلْ وَلَا حَرَجَ)’’جاؤ کرو اور کوئی حرج نہیں ‘‘[3]
5۔ شدید بارش کے دوران مقیمین کو دو نمازیں جمع تقدیم کے ساتھ پڑھنے کی اجازت ، دورانِ سفر نماز قصر کرنے اور دو نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت ، دورانِ حیض ونفاس خواتین کو نمازوں کی معافی اور روزے قضا کرنے کی اجازت وغیرہ… یہ سب رخصتیں دین میں آسانی کی دلیل ہیں۔
2۔ اسلام ایک مکمل دین ہے
اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں۔اور یہ اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور
[1] [ البقرۃ:۱۸۵]
[2] [ مسند احمد:۲۰۶۸۸۔ وقال محققہ الأرناؤط:حسن لغیرہ ]
[3] [ البخاری:۱۷۳۶ ، مسلم:۱۳۰۶ ]