کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 20
’’ بھلا آپ نے اس پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی معبود بنا رکھا ہے ؟ کیا(اس کو راہِ راست پر لانے کے)ذمہ دار آپ بن سکتے ہیں ؟ یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔‘‘[1]
یہ آیت اِس بات کی دلیل ہے کہ خواہشاتِ نفس کا پیروکار انسان جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ لہذا اگر اسے صحیح معنوں میں ’ مسلمان ‘ بننا ہے تو نفسانی خواہشات کی پیروی کی بجائے اللہ تعالی کی مکمل فرمانبرداری کرنا ہوگی اور اس کی رضامندی کے حصول کیلئے اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہو گا۔
اسی طرح ارشاد فرمایا:﴿ اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ﴾
’’ بھلا آپ نے اس کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنایا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ ‘‘[2]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی اسلامی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا اور زندگی من مانی کرتے ہوئے گذارتا ہے اور اپنی خواہشات کو ہی رہبر ومرشد اور معبود بنا لیتا ہے تو اس کے کانوں اور دل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ آنکھیں ہونے کے باوجود اندھوں جیسا ہو جاتا ہے ! والعیاذ باللہ
لہذا مسلمان کو ایسا طرزِ عمل نہیں اختیار کرنا چاہئے اور صدق دل سے اللہ تعالی کا تابع فرمان بننا چاہئے۔اسی کو مسلمانی کہتے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٭ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾
’’ مومنوں کی تو بات ہی یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو کہتے ہیں کہ ’ ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘۔ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے ، اللہ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں۔‘‘[3]
اور جہاں تک خواہشات نفس کی پیروی کا تعلق ہے تو یہ مسلمان کیلئے انتہائی تباہ کن ہے۔
[1] [الفرقان:۴۳۔ ۴۴]
[2] [الجاثیۃ:۲۳]
[3] [النور:۵۱۔۵۲]