کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 19
دئیے ؟ کس نے سوچنے کیلئے دماغ عطا کیا ؟ کس نے بولنے کیلئے زبان دی ؟ کس نے پکڑنے کیلئے ہاتھ اور چلنے کیلئے پاؤں دئیے ؟ وہ کون ہے جس نے اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا ؟ وہ کون ہے جس نے اسے رزق عطا کیا ؟ وہ کون ہے جس نے اِس انسان کیلئے شمس وقمر ، زمین وآسمان ، باغات ودرخت اورکائنات کی ہر چیزپیدا کی ؟ جس نے بغیر عوض کے انسان کو سب کچھ عطا کردیا کیا اس کا یہ حق نہیں کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے ؟ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے ؟ اس کی منہیات سے پرہیز کیا جائے ؟ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ﴾ ’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی اطاعت کرتے رہو۔اور(نافرمانی سے)ڈرتے رہو۔پھراگر تم نے اعراض کیا تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو بس صاف صاف پہنچادینا ہے۔‘‘[1] اسی طرح فرمایا:﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ وَأَنَّہُ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کا حکم مانو جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لئے زندگی بخش ہو۔اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔اور اسی کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے۔‘‘[2] ان آیات میں اور اِس طرح کی دیگربے شمار آیات میں اللہ تعالی نے اپنی فرمانبرداری اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گذاری کا واضح حکم دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بحیثیت مسلمان آزاد نہیں کہ جو چاہے اورجیسے چاہے کرتا رہے بلکہ وہ اِس بات کا پابند ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو ہر صورت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل درآمد کرے اور ان کی نافرمانی سے بچے۔اسی کو ’اسلام ‘ کہتے ہیں۔ورنہ اگر وہ من مانی کرتا رہے اور جو جی میں آئے اسے پورا کرنے پر تل جائے ، یہ نہ دیکھے کہ اس سے اللہ تعالی راضی ہو گا یا ناراض ، تو ایسا انسان اپنی خواہشات کا پجاری ہوتا ہے اور وہ اِس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرکے جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـہَہُ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ٭ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا﴾
[1] [المائدۃ:۹۲] [2] [ الأنفال:۲۴ ]