کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 16
چوری اور بے حیائی وغیرہ کی حرمت۔اِس طرح کے بنیادی احکام تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل کئے گئے اور ان میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی۔ہاں دین کی جزئیات میں حالات کے مطابق تبدیلی ہوتی رہی ہے مثلا آدم علیہ السلام کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا جو بعد میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کے ادوار میں حرام قرار دے دیا گیا۔اسی طرح اُس دور میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا جو بعد میں حرام کردیا گیا۔سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں اموال غنیمت سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں تھا جبکہ آخر الزمان نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں انھیں حلال قرار دیا گیا۔اسی طرح نمازوں کی تعداد اور طریقۂ ادائیگی ، زکاۃ کی مقدار اور روزوں کی تعداد وغیرہ میں بھی مختلف انبیاء کی شریعتوں میں فرق رہا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اصول ومبادی اور بنیادی احکام کے لحاظ سے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا۔جبکہ ان میں سے بعض کی شریعتیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(اَلْأنْبِیَائُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ) ’’ تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ان کی مائیں(شریعتیں)الگ الگ تھیں لیکن سب کا دین ایک تھا۔‘‘[1] خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پرایمان لانا فرض ہے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی شریعت پر ایمان لانا قیامت تک آنے والے تمام لوگوں پر فرض ہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک آنے والے تمام عرب وعجم کیلئے ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:﴿ قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا﴾ ’’ کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘[2] نیز فرمایا:﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔مگر لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔ ‘‘[3] اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(… وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً) ’’ ہر نبی کو اس کی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘[4]
[1] [ بخاری:۳۴۴۳ ، مسلم:۲۳۶۵ ] [2] [ الأعراف:۱۵۸ ] [3] [سبأ:۲۸] [4] [ بخاری:۴۳۸۔واللفظ لہ ، مسلم:۵۲۱]