کتاب: زاد الخطیب (جلد3) - صفحہ 15
اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾
’’اور ابراہیم علیہ السلام کے دین سے تو وہی نفرت کر سکتا ہے جس نے خود اپنے آپ کواحمق بنا لیا ہو۔بے شک ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی وہ صالح لوگوں میں سے ہوں گے۔جب انھیں ان کے رب نے فرمایا:فرمانبردار ہو جاؤ تو انھوں نے فورا کہا:میں جہانوں کے رب کا فرمانبردار بن گیا ہوں۔اور ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو بھی اسی دین کی وصیت کی تھی۔(انھوں نے کہا)میرے بیٹو ! اللہ نے تمھارے لئے یہی دین پسند کیا ہے۔لہذا تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘[1]
اِس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام جو کہ ان کی اولاد سے ہی تھے ، سب کا دین اسلام تھا۔اور اسی پر قائم رہنے کی وصیت ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بھی کی تھی۔
اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ وَ اُمْرِتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ﴾
’’ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہو جاؤں۔ ‘‘[2]
اور حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَ قَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ ﴾
’’ اور موسی علیہ السلام نے کہا:اے میری قوم ! اگر تم واقعتا اللہ پر ایمان لے آئے ہو تو پھر اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو تو۔‘‘[3]
اسی طرح بلقیس نے کہا تھا:
﴿قَالَتْ رَبِّ اِِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾
’’ اس نے کہا:اے میرے رب ! میں نے یقینا اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔اور اب میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اُس اللہ کیلئے مسلمان ہو چکی ہوں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘[4]
ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا اور وہ ہے دین اسلام۔
تاہم یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دین سے مراد وہ اصول ومبادی ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔مثلا توحید ِ باری تعالی پر ایمان لانا ، شرک کی حرمت ، قیامت کا دن اور اس میں لوگوں کا حساب وکتاب ، قتل ِناحق ،
[1] [البقرۃ:۱۳۰۔۱۳۲ ]
[2] [ یونس:۷۲ ]
[3] [یونس:۸۴]
[4] [النمل:۴۴]