کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 91
سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ [1])) ’’ تین افراد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا : اپنا تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا جو جب بھی کوئی چیز دیتا ہے تو اس پر احسان جتلاتا ہے اور جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سودا بیچنے والا ۔‘‘ ان تمام احادیث کے پیش نظر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ لین دین کے معاملات میں بھی سچ بولے اور جھوٹ سے پرہیز کرے ۔ عزیزان گرامی ! پورے خطبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو سچ بولنے اور سچے لوگوں میں شامل رہنے کا حکم دیا گیا ہے ، کیونکہ سچ بولنے میں بڑی برکات ہیں اور جھوٹ بولنے کے نقصانات نہایت بھیانک ہیں ۔لہٰذاہر مسلمان کو یہ صفت اختیار کرتے ہوئے اپنی عمومی گفتگو میں بھی ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے ، اس سے گواہی طلب کی جائے تو وہ سچی گواہی دے ، قسم اٹھائے تو سچی قسم اٹھائے ، عقائد واعمال میں بھی سچائی اختیار کرے اور خرید وفرخت کے معلاملات میں بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔ دوسرا خطبہ برادران اسلام ! جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور پہلے خطبہ میں ذکر کی گئی صورتوں کے علاوہ اس کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں ۔ 1۔ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلَالٌ وَّہَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُونَ٭مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ﴾[2] ’’جو جھوٹ تمھاری زبانوں پر آ جائے اس کی بناء پر یہ نہ کہا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے اور اس طرح تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا کرنے لگو ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے ۔ (ایسے جھوٹ کا ) فائدہ تو تھوڑا سا ہے مگر ( آخرت میں ) ان کیلئے المناک عذاب ہے ۔‘‘
[1] صحیح مسلم : 106،سنن الترمذی :1211 [2] النحل16 :117-116