کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 90
یقینا وہ کامیاب ہو کر جنت میں پہنچ جائے گا ۔
تجارت وکاروبار میں سچائی
مسلمان کو کاروبار اور تجارت میں بھی سچا ہونا چاہئے اور کاروباری اشیاء کی خرید وفروخت میں جھوٹ سے کام نہیں لینا چاہئے ۔
حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کاروبار میں مشغول دیکھا تو آپ نے فرمایا : (( یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ!)) ’’ اے تاجروں کی جماعت ! ‘‘
تو وہ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کا ارشاد بغور سننے کیلئے تیار ہو گئے ۔ تب آپ نے فرمایا : (( إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللّٰہَ وَبَرَّ وَصَدَقَ [1]))
’’ بے شک تاجروں کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ گناہگار ہونگے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا ، نیکی کرتا رہا اور سچ بولتا رہا ۔‘‘
کاروبار اور لین دین میں سچ بولنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں برکت آتی ہے جبکہ جھوٹ بولنے سے اس کی برکت ختم ہو جاتی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا،فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا [2]))
’’ خریدار اور بیچنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کر لیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں ۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی ۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی بات کو ظاہر نہ کریں تو ان کے سودے میں برکت ختم ہو جائے گی ۔‘‘
جھوٹی قسم اٹھا کر اپنی کوئی چیز فروخت کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ…اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ،وَالْمَنَّانُ الَّذِیْ لَا یُعْطِیْ شَیْئًا إِلَّا مَنَّہُ،وَالْمُنْفِقُ
[1] سنن الترمذی:1210: حسن صحیح ، سنن ابن ماجہ :2146
[2] صحیح البخاری :1973،صحیح مسلم:1532