کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 87
قسم بھی سچی ہی اٹھانی چاہئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَا تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ وَلَا بِأُمَّہَاتِکُمْ وَلَا بِالْأنْدَادِ،وَلَا تَحْلِفُوْا إِلَّا بِاللّٰہِ،وَلَا تَحْلِفُوْا بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُوْنَ )) [1] ’’تم اپنے باپوں ، ماؤں اور شریکوں کی قسم نہ اٹھایا کرو اور صرف اللہ ہی کی قسم اٹھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی صرف اس وقت اٹھایا کرو جب تم سچے ہو ۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ مسلمان کو صرف سچی قسم ہی اٹھانی چاہئے اور جھوٹی قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ جبکہ آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ دیدہ دلیری کے ساتھ جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں اور اپنے بھائیوں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ گواہی بھی سچی ہی دینی چاہئے اسی طرح مسلمان کو صرف سچی گواہی ہی دینی چاہئے اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟)) ’’ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال تین بار کیا ۔ ہم نے کہا : کیوں نہیں اے اﷲ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ )) ’’ اﷲ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہارا لیا ہوا تھا ۔ پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا :(( أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ،أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْر،أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْر )) [2] ’’ خبر دار !جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔ خبر دار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔ خبر دار!جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے ( دل میں )
[1] سنن أبی داؤد : 3248، سنن النسائی :3769۔ وصححہ الألبانی [2] صحیح البخاری،الأدب باب عقوق الوالدین من الکبائر:5976،صحیح مسلم:الإیمان ۔87