کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 86
’’ تم مجھے اپنی طرف سے چھ باتوں کی ضمانت دے دو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ جب بات کرو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو ، تمھیں امانت سونپی جائے تو اسے ادا کرو ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ، نظریں جھکائے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔‘‘ مذکورہ چھ باتوں میں سے سب سے پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ ہے : عمومی گفتگو میں سچ بولنا ۔لہٰذاہر وہ مسلمان جو جنت میں جانے کا خواہشمند ہو اسے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے اور جھوٹ سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہئے ۔ ورنہ وہ یہ بات یاد رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی گفتگو میں جھوٹ بولنے کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ یہ منافق کی نشانیوں میں سے ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ:إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ،وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ،وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ[1])) ’’ منافق کی نشانیاں تین ہیں : وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اسے امانت سونپی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘ اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :(( أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا،وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا : إِذَا ائْتُمِنَ خَانَ،وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ،وإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ،وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)) [2] ’’چار خصلتیں جس میں پائی جاتی ہوں وہ پکا منافق ہوتا ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت پائی جاتی ہو اس میں منافقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ پہلی یہ کہ اسے جب امانت سونپی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔ دوسری یہ کہ وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیسری یہ کہ وہ جب عہد کرتا ہے تو اسے توڑ دیتاہے اور چوتھی یہ کہ وہ جب جھگڑا کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔‘‘ ان دونوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جھوٹ بولنا منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے۔ لہٰذامومن کے شایان شان نہیں اور نہ ہی اسے یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں جھوٹ بولے ۔
[1] صحیح البخاری : 33 [2] صحیح البخاری :34