کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 85
صلہ رحمی کاحکم بھی دیتے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر ہر قل نے کہا : جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ برحق ہے تو وہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) عنقریب میرے تختِ پا کے مالک بن جائیں گے ۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صادق ( سچا ) ہونے اور سچ بولنے کا حکم دینے کے بارے میں یہ شہادت ان لوگوں نے دی جو آپ کے جانی دشمن تھے ۔ اور سچ وہی ہوتا ہے جس کو دشمن بھی تسلیم کریں ۔ اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ شدید پریشانی کے عالم میں گھر واپس لوٹے تو ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا : (( فَوَ اللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ أَبَدًا،وَاللّٰہِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ،وَتَحْمِلُ الْکَلَّ،وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ،وَتَقْرِی الضَّیْفَ،وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ )) [2] ’’اللہ کی قسم ! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہ کرے گا ۔ اللہ کی قسم ! آپ تو صلہ رحمی کرتے ، سچ بولتے ، بوجھ اٹھاتے ، جس کے پاس کچھ نہ ہو اسے کما کر دیتے ، مہمان نوازی کرتے اور مصائب وآلام میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی آپ کے ان اخلاق کریمانہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی صادق تھے اور صدق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کا ایک لازمی حصہ تھا ۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائز قرار دیا ہے : ﴿وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ [3] لہٰذا ہمیں بھی انبیائے کرام علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے اور جھوٹ سے اپنی زبان کو پاک رکھنا چاہئے ۔ عمومی گفتگو میں سچ ہی بولنا چاہئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( اِضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃَ: اُصْدُقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ،وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُّمْ،وَأَدُّوْا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ،وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ،وَغُضُّوْا أَبْصَارَکُمْ،وَکُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ[4]))
[1] صحیح البخاری: 7 [2] صحیح البخاری :3 ، صحیح مسلم :160 [3] القلم68 :5 [4] أحمد وابن حبان وحسنہ الأرناؤط