کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 84
شخص ہمیشہ سچ بولتا اور سچ ہی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ نہایت سچ بولنے والا آدمی ہے ۔ اور تم جھوٹ سے پرہیز کیا کرو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اور ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ ہی کا متلاشی رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ہے ۔‘‘
صدق انبیائے کرام علیہم السلام کا اخلاق
تمام انبیائے کرام علیہم السلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور صدق ان کے اخلاق فاضلہ کا لازمی حصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء علیہم السلام کی یہ صفت یوں ذکر فرمائی :
٭ یوسف علیہ السلام : ﴿أَنَا رَاوَدتُّہُ عَن نَّفْسِہِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ﴾[1]
٭ ابراہیم علیہ السلام : ﴿إِنَّہُ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾[2]
٭ اسی طرح ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمایا : ﴿إِنَّہُ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾ [3]
٭ اسحاق اور یعقوب علیہما السلام : ﴿وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا﴾[4]
٭ اسماعیل علیہ السلام : ﴿إِنَّہُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ﴾[5]
اور جہاں تک امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ نبوت ملنے سے پہلے ہی ’’الصادق الأمین‘‘کے القاب سے مشہور تھے اور اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی آپ کے بارے میں یہ گواہی دی کہ(( مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلَّا صِدْقًا )) [6] ’’ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے ہی پایا ہے ۔‘‘
اور جب ابو سفیان شاہِ روم (ہرقل )کے ہاں حاضر ہوئے تو اس وقت وہ مسلمان نہ تھے ، انھوں نے بہت بعد میں اسلام قبول کیا ۔ ہرقل نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کئی سوالات کئے ۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ وہ آپ کو کن کن باتوں کا حکم دیتے ہیں ؟ تو ابو سفیان نے کہا تھا:
(( یَقُوْلُ : اعْبُدُوا اللّٰہَ وَحْدَہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا،وَاتْرُکُوْا مَا یَقُوْلُ آبَاؤُکُمْ،وَیَأْمُرُنَا بِالصَّلَاۃِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَۃِ ))
’’وہ فرماتے ہیں: تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ اور جو کچھ تمھارے آباء واجداد کہتے تھے اسے چھوڑ دو ۔اس کے علاوہ آپ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پاکدامن رہنے اور
[1] یوسف12 :51
[2] مریم19 :41
[3] مریم 19:56
[4] مریم19: 50
[5] مریم19 :54
[6] صحیح البخاری :4770، صحیح مسلم :208