کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 81
﴿ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ أَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْا أَنْ لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ إِلَّا إِلَیْہِ﴾[1]
’’زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی تنگ ہو گئیں اور انہیں یہ یقین تھا کہ اللہ کے سوا ان کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں۔‘‘
واقعتا میری جان بھی مجھ پر تنگ تھی اور زمین بھی باوجود وسیع ہونے کے تنگ تھی ۔ اسی دوران میں نے چیخنے والے کی آواز سنی جو ’ جبل سلع‘ کے اوپر چڑھ کر بآواز بلند کہہ رہا تھا :(( یَا کَعْبَ بْنَ مَالِک،أَبْشِرْ ))’’ اے کعب بن مالک ! تمھیں خوشخبری ہو ۔‘‘
یہ سن کر میں سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ اب مشکل ٹل گئی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہماری توبہ کی قبولیت کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ سب ہمیں خوشخبری سنانے کیلئے نکل پڑے ۔ ایک شخص اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر میری طرف دوڑا لیکن جس نے مجھے پہاڑ کے اوپر سے بآواز بلند خوشخبری سنائی تھی اس کی آواز گھوڑے سے زیادہ تیزرفتار ثابت ہوئی ۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا تو لوگ فوج در فوج مجھے ملتے اور مبارکباد دیتے ہوئے کہتے : اللہ تعالیٰ نے تمھاری توبہ قبول کر لی ، تمھیں مبارک ہو ۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ میں نے سلام پیش کیا ۔ اس وقت آپ کا چہرۂ انور خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اتنا روشن تھا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو ۔
آپ نے فرمایا : (( أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْکَ مُنْذُ وَلَدَتْکَ أُمُّکَ ))
’’ جب سے تمہیں تمھاری ماں نے جنم دیا آج کا دن تیر ے لئے سب سے بہتر ہے ،لہٰذاتمھیں اس کی خوشخبری ہو ۔‘‘
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اپنی توبہ کی قبولیت کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنا پورا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے صدقہ کرتا ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ مَالِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ ))
’’ تم کچھ مال اپنے پاس رکھ لو ، یہ تمھارے لئے بہتر ہے۔ ‘‘
میں نے کہا : مجھے جو حصہ خیبر سے ملتا ہے میں اسی کو اپنے پاس رکھ لوں گا ۔
[1] التوبۃ 9:118