کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 63
’’کتنے پڑوسی قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے ہونگے ، ان میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی کے بارے میں کہے گا : اے میرے رب ! اس نے میرے سامنے اپنا دروازہ بند کر کے اپنی نیکی کو روک لیا تھا ۔‘‘ نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی کے گھر میں بکرے کا سر بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو اس نے کہا : میرا فلاں بھائی اور اس کے بچے مجھ سے زیادہ ضرورتمند ہیں ۔ چنانچہ اس نے وہ گوشت اس کے گھر میں بھیج دیا ۔ جب وہ اِس دوسرے صحابی کے گھر میں پہنچا تو اس نے بھی وہی بات کی جو پہلے صحابی نے کی تھی اور گوشت تیسرے صحابی کے گھر میں بھیج دیا ۔ اِس طرح یہ گوشت سات گھروں میں سے ہوتا ہوا پھر پہلے صحابی کے ہاں پہنچ گیا ۔تب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾[1] 3۔ خندہ پیشانی سے ملنا ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا : (( لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا ، وَلَوْأَنْ تَلْقٰی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ [2])) ’’ تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہی ملاقات کرو ۔‘‘ مسلمان بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( تَبَسُّمُکَ فِی وَجْہِ أَخِیْکَ صَدَقَۃٌ،وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَہْیُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ ،وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِی أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَۃٌ ، وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِیْئِ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَۃٌ ، وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَۃَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِیْقِ لَکَ صَدَقَۃٌ،وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِی دَلْوِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَۃٌ [3])) ’’ تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے ، نیکی کا حکم دینا اوربرائی سے منع کرنا صدقہ ہے ، راستہ بھولے ہوئے آدمی کو راستہ دکھلانا تمھارے لئے صدقہ ہے ، کمزور نظر والے کو دکھلانا تمہارے لئے صدقہ ہے ، راستے پر پڑے ہوئے پتھر ، کانٹے اور ہڈی کو ہٹانا تمہارے لئے صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا تمھارے لئے صدقہ ہے ۔‘‘
[1] مستدرک حاکم ۔صححہ وافقہ الذہبی ۔ وصححہ الحافظ فی الفتح [2] صحیح مسلم :2626 [3] الترمذی :1956۔ وصححہ الألبانی