کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 62
اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے کس طرح اظہار ہمدردی کرتے تھے اس کا اندازہ اس قصہ سے کر سکتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ( ہجرت کر کے ) ہمارے پاس تشریف لائے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جو کہ بہت مالدار تھے ۔ انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور یہ بات انصار کو بھی معلوم ہے۔ تومیں اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میرے لئے اور دوسرا آپ کیلئے اور اس کے علاوہ میری دو بیویاں بھی ہیں ، آپ کو ان دونوں میں سے جو زیادہ اچھی لگے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے شادی کر لیں ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : (بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ أَہْلِکَ وَمَالِکَ ) ’’ اللہ تعالیٰ آپ کے گھر والوں اور آپ کے مال میں برکت دے ۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مبارکباد دی اور فرمایا : (( أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ )) [1] ’’تم ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ذبح کرکے ہی۔ ‘‘ یہ اُس وقت کی بات ہے جب مسلمان ‘ مسلمان کا ہمدرد تھا اور وہ ضرورت سے زیادہ چیزیں اپنے ضرورتمند بھائی کو دے دیا کرتا تھا ۔ جبکہ آج حالات بدل چکے ہیں ، کسی کو کسی کی فکر کم ہی ہے ، ہر شخص اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کیلئے ہی سوچتا ہے اور نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیزیں گھر میں پڑی پڑی خراب ہو جاتی ہیں لیکن ضرورتمند مسلمان کو نہیں دی جاتیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی پر دینار ودرہم کو ترجیح نہ دیتا تھا جبکہ آج ہمیں مسلمان بھائی کی نسبت دینار ودرہم زیادہ محبوب ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :(( کَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَلِّقٍ بِجَارِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،یَقُولُ : یَا رَبِّ!ہَذَا أَغْلَقَ بَابَہُ دُوْنِیْ فَمَنَعَ مَعْرُوْفَہُ )) [2]
[1] صحیح البخاری :3780 ،3781 [2] الأدب المفرد : 111۔ وحسنہ الألبانی