کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 58
حکمتوں والا ہے ۔‘‘ اِس آیت کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ بعثت نبوی سے پہلے عرب لوگوں میں قبائلی جنگیں ہوتی تھیں جو سالہا سال تک جاری رہتی تھیں ، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے ، کسی قبیلے کا ایک آدمی مارا جاتا تو اس کے بدلے میں دسیوں بے گناہ لوگوں کو مار دیا جاتا ۔ مدینہ منورہ میں مقیم دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان بھی اسی طرح کی جنگیں ہوتی رہتی تھیں جن میں سے ایک ’’ جنگ بعاث ‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔ پھر جب اسلام آیا تو اِس دین کو قبول کرنے والے مختلف قبائل میں اللہ تعالیٰ نے الفت ومحبت پیدا کر دی اور سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ۔ پھر وہ لوگ جو کل تک باہم دست وگریباں تھے اب شیر وشکر ہو گئے ۔ جو کل تک ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اب ایک دوسرے سے دلی محبت کرنے لگے اور جو کل تک ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اب اپنے بھائیوں کی ضرورتوں پر اپنی ضرورتوں کو قربان کرنے لگے ۔یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا۔ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کو فتح کیا تو آپ نے مال ِغنیمت تقسیم کیا اور ان لوگوں کو دیا جن کی تالیف قلب کرنا مقصود تھا ۔ پھر آپ تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی اُن کی طرح مال غنیمت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ، ان سے خطاب کرنا شروع کیا اور حمد وثناء کے بعد فرمایا : (( یَا مَعْشَرَ الْأنْصَارِ،أَلَمْ أَجِدْکُمْ ضُلَّالًا فَہَدَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ؟وَعَالَۃً فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ؟ وَمُتَفَرِّقِیْنَ فَجَمَعَکُمُ اللّٰہُ بِیْ ؟)) [1] ’’ اے انصار کی جماعت ! کیا تم گمراہ نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعے ہدایت دی ؟اور تم فقیر نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعے مالدار بنا دیا ؟ اور تم جداجدا نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعے جمع کردیا ؟ ‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ سوالات کر رہے تھے تو انصار ہر سوال کے جواب میں یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کا احسان بہت بڑا ہے ۔
[1] صحیح البخاری:4330،صحیح مسلم:1061