کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 554
’’ جب کسی مسلمان کو کوئی اذیت ( تکلیف ) پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتا ہے جس طرح درخت کے پتے گرتے ہیں ۔ ‘‘ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف اور ادنی ترین آزمائش پر حتی کہ ایک کانٹا چبھنے پر بھی اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ صبر وتحمل کا دامن نہ چھوڑے اور ہر آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائے ۔ کسی بندہ ٔ مومن میں جب یہ دونوں صفات ( صبر و شکر ) جمع ہو جائیں تو وہ یقین کر لے کہ اسے خیر ِ کثیر نصیب ہو گئی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ،إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ،وَلَیْسَ ذَلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ: إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ،وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ[1])) ’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے ۔ یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے ، اس طرح وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے ۔ اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعث ِ خیر بن جاتی ہے ۔‘‘ نواں اصول : توکل وہ لوگ جن پر دشمن کی شرارتوں ، سازشوں اور ان کے ہتھکنڈوں کا خوف طاری رہتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ سخت بے چین رہتے ہوں ان کی خوشحالی کیلئے خصوصا اور باقی تمام لوگوں کیلئے عموما نواں اصول یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل ( بھروسہ ) کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شر سے بچانے والا ہے اور اس کے حکم کے بغیر بڑے سے بڑا طاقت ور بھی کسی کو کوئی نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ قُلْ لَّنْ یُصِیْبَنَا إِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلَانَا وَعَلیَ اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾[2] ’’ آپ کہہ دیجئے کہ ہم پر کوئی مصیبت نہیں آ سکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ وہی ہمارا سرپرست ہے اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے ۔ ‘‘ اور فرمایا :﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ ﴾[3]
[1] صحیح مسلم:2999 [2] التوبۃ9 :51 [3] الطلاق65 :3